نئے سال میں روشن مستقبل کی نوید !
پا کستان میں ایک کے بعد ایک سال گزرتا جارہا ہے ، لیکن عوام کی اُمید ہے کہ بر ہی نہیں آرہی ہے ، ہر سال ہی عوام ایک نئی اُمید لگاتے ہیں اور ہر سال کے اختتام پر مایوس ہو جاتے ہیں ، عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آرہی ہے نہ ہی عوام کی کہیں دارسی ہو پارہی ہے ، عوام کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہی ہوتی جارہی ہے ، کیا ا س نئے سال میںعوام کی اُمید بر آئے گی اور کیا عوام حکمرانوں کی تر جیحات میں شامل ہو پائیں گے ؟اگر حکمرانوں کے روئیوں کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا نہیں ہے ، اس کے باوجود نئے سال کے آغاز پر ایک نئی اُمید عوام لگائے بیٹھے ہیں کہ اس بار اُن کی زندگی میں کوئی تبدیلی ضرور آئے گی۔
اگر دیکھا جائے تو ہر دور اقتدار میں حکمران دعوئیدار رہے ہیں کہ عوام کی اُمیدیں بر لائیں گے ، عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ، مگر وہ دعوئے اور وعدے ہی کیا ،جو کہ پورے ہو جائیں ،ہر دور اقتدار میں حکمرانوں کے سارے دعوئے اور وعدے دھر کے دھرے رہے ہیں ،اس بار بھی ویسا ہی کچھ ہورہا ہے ،
ایک کے بعد ایک منصوبہ بنایا جارہا ہے ، ایک کے بعد ایک منصوبہ دکھایا جارہا ہے ، مگر یہ منصوبے پائے تکمیل کو پہنچ رہے ہیں نہ ہی ان کے اثرات کہیں دکھائی دیے رہے ہیں ،یہ نما ئشی اعلانات و اقدامات محض عوام کو بہلانے اور بہکا نے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں ، اس کے باوجود ایک بار پھر عوام کو بہلایا جارہا ہے ، ایک نئے منصوبے کے پیچے لگایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس منصوبے کے پائے تکمیل پر سب کچھ ہی بدل جائے گا ۔اس منصو بے نام ’’اُڑان پاکستان‘‘ تجویز کیا گیا ہے ،
اس کے افتتاح پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ ملک کی اقتصادی نمو اور اقوام عالم میں کھڑے ہونے، مقام کے حصول کے لیے ایک بڑے سفر اور نئی صبح کا آغاز ہے، اس سفر میں کامیابی کے لیے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی نا گزیر ہے ،ہم سب مل کر قائد اعظم کے خواب کی تکمیل کی خاطر کام کریں گے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے قومی یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں گے،مگرملک کو آگے لے جانے کے لیے اور عوام کی زندگی میں تبدیلی لا نے کیلئے اشرافیہ کو بھی کچھ قربانیاں دینا ہوں گی،
لیکن ہمارے ملک کی اشرافیہ اتنی اچھی نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے کہنے پر قربانیاں دینے پر آمادہ ہو جائے گی ،اس کیلئے واضح منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا اور اہداف طے کر کے نتائج کے حصول کو یقینی بنانا ہوگا، یہ خالی خولی و عظ و نصیحت سے اصلاح احوال کی توقع رکھنا خام خیالی ہوگی۔
اس قسم کی باتیں وزیر اعظم کو ئی پہلی بار نہیں کررہے ہیں،اس طر ح کے ہی ارشاد گا ہے بگا ہے فرماتے رہتے ہیں، مگر ان کا منصب ان سے صرف باتوں کی نہیں، بلکہ عملی اقدامات اور نتائج کا تقاضا کرتا ہے،اگر ان کے ہی دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو حقائق اور اعداد وشمار ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ان کے دور میں کرپشن اور چور بازاری، مہنگائی اور بے روز گاری، غربت اور افلاس میں کمی نہیں ،بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے، اس لیے حکومت جتنے چاہے دعوے کرے کہ مہنگائی میں کمی آئی ہے
،مگر زمینی حقائق اور خود حکومتی اداروں کے جاری کردہ اعداد وشمار ان دونوں کی تصدیق کے بجائے تردید کر رہے ہیں،لیکن حکو مت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے بضد ہے اور حقائق ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی اپنی نا اہلیوں کا تدارک کررہی ہے ۔
اس حکو مت کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ ہے نہ ہی کچھ دینے کی اہلیت رکھتی ہے ،اس حکو مت کے عہدیدار باتیں کر نے کے علاوہ کچھ کر نے کی صلا حیت ہی نہیں رکھتے ہیں ، یہ آزمائے لوگ ہیں ، انہوں نے پہلے کچھ کیا ہے نہ ہی آئندہ کچھ کر پائیں گے، وزیر اعظم شہباز شر یف کو ہی دیکھ لیںکہ وہ ایک جانب نئے سال کے آغاز پر عوام کو رلیف دینے کی باتیں کررہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب ان کی ہی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے نئے سال کے تحفہ کے طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا جا رہا ہوتا ہے،
کیا یہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے مجبور عوام کی جیبوں پر کھلا ڈاکا نہیں ہے، وزیر اعظم کو ایسی باتیں کر نے سے قبل اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے، کیا اس طرح سے پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی اور عوام کی زند گی میں کوئی تبد یلی لائی جاسکے گی ،حکو مت کے’’ اُڑان پا کستان‘‘ منصوبے پر باتیں کر نے سے نہیں ، مؤثر عملی اقدامات سے ہی پائیدار ترقی ممکن ہو پائے گی اورپا کستانی قوم اپنے روشن مستقبل کی نوید سن پائے گی۔