مذاکرات سے عوامی توقعات !
حکو مت اور تحریک انصاف کے درمیان دوسرا مذاکرات دور بڑی ہی خوش اسلوبی سے مکمل ہوا ہے ، اس مذاکراتی دور کو دونوں ہی فر یقین خوش گوار قرار دیے رہے ہیں،عوام کو بھی ایسے ہی خوش گوار رو یئے کا بڑی شدت سے انتظاررہا ہے ، اب دیکھنا ہے کہ یہ مفاہمت کی بیل کب منڈھیر چڑھتی ہے اور سیاسی حالات کب تک ساز گار ہو تے ہیں ، کیو نکہ جب تک سیاسی حالات ساز گار نہیں ہوں گے ،
ملک کے معاشی حالات بھی ساری کائوشوں کے باوجود ساز گار نہیں ہو پائیں گے ، اس مذاکرات سے ایک بار پھر عوام نے اُمید لگائی ہے ، اب دیکھنا ہے کہ فر یقین عوام کی توقعات پر پورا اُتر تے ہیں کہ عوام کو مایوس کرتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دو برس سے جاری سیاسی تنائو نے ملک کے ہر حصے کو ہی بڑی طرح سے متاثر کیا ہے اور ہمیں تسلیم کر نے میں کوئی عار نہیں ہو نا چاہئے کہ اس اندرونی تقسیم نے ہمیں بحیثیت قوم کمزور کیا ہے ،یہ تقسیم نہ صرف اندرون ملک ،بلکہ بیرون ملک بھی بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے،اس کا پورا فائدہ ملک دشمن اُٹھا رہے ہیں
اور جلتی پر مزید تیل ڈالے جا رہے ہیں ، اہل دشمن تو ایسا ہی کریں گے ، اس لگائی آگ کو مفاہمتی عمل سے ہی بجھایا جاسکتا ہے اور مذاکرات کا میاب بنا کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ، اس بارحکو مت اور اپوزیشن دونوں ہی سنجیدگی کا مظاہر ہ کررہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کیلئے کوئی راستہ نکالنے میں کا میاب ہو جائیں گے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے کوئی راستہ نکالا جائے اور سیاسی حالات کو بہتر بنایا جائے ، کیو نکہ اس پر ہی معاشی حالات کے ساز گار ہو نے کا دارو مدار ہے ، حکو مت ڈنگ ٹپانے کیلئے ایک طرف معیشت کے بہتر ہو نے دعوئے کررہی ہے
تو دوسری جانب خود ہی اپنی معاشی رپورٹ میں اعتراف بھی کررہی ہے کہ ر واں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح افزائش ایک فیصد سے بھی کم جارہی ہے ،جبکہ دوسری جانب دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے ، اس صورت حال میں ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اندرونی سیاسی اختلا فات کو ختم کریں ، ملک میں سیاسی استحکام پیدا کریں اور بحیثیت قوم متحد ہو کر در پیش چیلنجز کا سامنا کریں ،اس کیلئے سب سے پہلے سیاسی تنائو کا خاتمہ کر نا ہو گا ، اس کے بغیر آگے بڑھا جاسکتا ہے نہ ہی ملک میں استحکام لایا جاسکتا ہے ۔
اس بات کا ادراک کرتے ہوئے حکو مت اور اپوزیشن مل ہی بیٹھے ہیں تو ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ صد ق دل سے جاری مذاکرات کا میاب بنانے کی کی پوری کوشش کریں ،اس کیلئے فر یقین کو ایک دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے توپیچھے ہٹ جائیں ، اپنی انا درمیان میں لائیں نہ ہی ہٹ دھر می دکھائیں ،قومی مفاد میں اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی قر بانی دیں گے تو ہی سارے الجھے معاملات سلجھ پائیں گے
، اس تنا ظر میں حکومت جہاں عدالتی کمیشن بنا نے پر رضا مندی کا اظہار کررہی ہے ،وہیں بانی تحریک انصاف کو بنی گالہ منتقل کر نے اور پیرول پر رہائی دینے کا بھی عندیہ دیے رہی ہے، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ،اس پیش رفت پر امید کر نی چاہئے کہ اس طر ح ہی فر یقین لچک کا مظا ہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بات چیت آ گے بڑھائیں گے ، بلکہ اپنے معاملات بھی سلجھا پائیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے
کہ عوام آئے روز کی لڑائی جھگڑوں سے اب تنگ آچکے ہیں ، عوام نے دس پندرہ سال بہت تباہی اورتنزلی دیکھ لی ہے،وہ اب ایک خوشحال اورخود مختار ملک کے باسیوں کی طرح جینا اور رہنا چاہتے ہیں، اس کا احساس اہل سیاست اور ریاست کو کر نا ہی ہو گا اور اپنے روئیوں کو بدلنا ہی ہو گا ، ہم کب تک آپس میں لڑکر اپنی بربادی کا خود ہی سامان پیدا کرتے رہیںگے اور اپنے دشمنوں کیلئے بھی خود ہی مواقع پیدا کرتے رہیں گے ،ہمیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکال باہرکرنا ہوگا، جو کہ فساد اور انتشار پیدا کرکے آج تک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے رہے ہیں،ہر ایک کو اپنا احتساب خود ہی کر نا ہو گا اور عوام کی اُمیدوں پر پورا اُتر نا ہو گا، ایک بار پھرعوام پر اُمید ہیں کہ اہل سیاست اور اہل ریاست، انہیں مایوس نہیں کر یں گے ۔