جینا بھی عذاب 18

غربت اور غریب

غربت اور غریب

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
صدیوں پہلے ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ غربت کی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات (monopoly) ہوتی ہیں ورنہ ہر بیروزگار جائز طریقے سے اپنی زندگی باعزت طورپر بسر کرنے کا بندوبست کر سکتا ہے۔ لیکن سماجی ، معاشی و سیاسی استحصال زدہ معاشرے میں ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ بے روزگاری غربت کا سب سے بڑا سبب ہے لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو ملوں،فیکٹریوں،صنعتی اداروں اور دیگر افرادی قوت والے کاروباری کومالکان کو سستے مزدور کیسے دستیاب ہوں گے

اسی طرح سیاستدانوں کو نعرے مارنے ،آوے ای آوے ،زندہ باد کہنے اور انتخابی جلسوں میں لڈیاں ڈالنے والے ورکرنہیں مل سکتے ، جاگیرداروں ،وڈیروں اور پیروںکی غلامی کرنے تو ناپید ہوجائیں گے کیونکہ ان سب کا کاروبار تو ان پڑھ، جاہل اور غریبوںکے باعث ہی پھل اور پھول رہاہے ۔ جنگ غربت کی وجوہات میں سے دوسرے نمبر پر ہے اور دنیا میں جنگ نے انسانوں کو غریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ جس بھی وجہ سے ہو اس میں انسانی جانوں کا بلادریغ ضیاع ہونا یقینی ہے۔ ایک مْلک ،قبیلے یا علاقے کا سارا مال و دولت دوسرے علاقوں میں چلا جاتا ہے یوں وہ لوگ غربت کا شکار ہوجاتے ہیں

لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے جس سے ان کی اولاد اور وہ خود بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہوجاتے ہیں بلاشبہ انسان ابھی تک قدرتی آفات پر قابو نہیں پا سکا جس کی وجہ سے اس کو بہت سا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ قدرتی آفات میں سونامی،قحط،زلززلے،سیلاب وغیرہ شامل ہیں۔ قدرتی آفات کی وجہ سے انسانوں کے گھر ٹوٹ جاتے ہیں،ان کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے یوں قدرتی آفات نے ہمیشہ انسانوں کی غربت میں اہم کردار ادا کیا پھر دولت کی غیر منصافہ تقسیم کے باعث عوام کیلئے کبھی کوئی اچھا معاشی نظام نہیں قائم کیا جاسکتا پاکستان،بھارت اورترقی پذیر ممالک اس کی روشن مثالیں ہیں

جہاں امیر ، امیرترین اور غریب مزید غریب ہوتا چلاجاتا ہے جس معاشرے میں علم و ہنر کی کمی ہو تو وہاں بھی لوگ کبھی ترقی نہیں کر سکتے زرعی زمینوں پربے ہنگم انداز سے دھڑا دھڑ ہائوسنگ سکیمیں بنانے سے بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہاہے اس سے سرمایہ چند واتھوںتک محدود ہو جانے سے بہت مسائل جنم لے رہے ہیں شہروںمیں سبزی ،پھل فروٹ اور لائیو سٹاک کی کمی سے نہ صرف اشیائے ضرورت مہنگی ہوتی چلی جارہی ہیں بلکہ لوگوںکے وسائل بھی کم ہورہے ہیں اس سنگین صورت ِ حال کا حکمرانوںکو اندازہ ہی نہیں یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو پاکستان جیسے زرعی ملک کو بھی خلیجی ممالک طرح برآمدات کی طرف جانا پڑے گا

جو غربت کا مزید پیش خیمہ ثابت ہوگا اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی بیشتر آبادی خوراک کی کمیابی کی وجہ سے شدید بھوک سے دو چار ہیں تقریباًً آدھی دنیا یعنی تین ارب سے زیادہ لوگ روزانہ ڈھائی امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرتے ہیں۔ 56 کروڑ 70 لاکھ لوگوں پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی (Gross domestic product) دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے۔ تقریباًً ایک ارب لوگ اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور نہ دستخط کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم پر خرچ کرتے تو 2024ء تک ہر بچے کے لئے اسکول جانا ممکن ہو جاتا

جو نہ ہو سکا خوفناک بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھرکے ایک ارب بچے انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں جن کو طبی سہولیات سرے سے ہی میسرنہیںجبکہ خوراک ولباس اور تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ 40 1کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ 27 کروڑ کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق2023 تک مختلف بیماریوں کا شکار ہوکرروزانہ 5سال عمر کے لگ بھگ 29000 بچے وفات پاجاتے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ معاشی لوازمات زندگی کے اعتبار سے غربت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ ؛ غربت کسی انسان (یا معاشرے) کی ایسی حالت کا نام ہے

جس میں اس کے پاس کم ترین معیار زندگی (minimum standard of living) کے لیے لازم اسباب و وسائل کا فقدان ہو۔ سادہ سے الفاظ میں کہا جائے تو یوں کہ سکتے ہیں کہ ؛ غربت، بھوک و افلاس کا نام ہے۔ جب کسی کو اتنی رقم میسر نہ ہو کہ وہ اپنا یا اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو خط ِ غربت کے نیچے زندگی بسر کررہاہے ان میںاگر کوئی بیمار ہو جائے اور اس کے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ دوا حاصل کر سکے تو یہ غربت ہے۔ جب کسی کے پاس سر چھپانے کی جائے پناہ نہ ہو تو یہ غربت ہے

اور جب بارش میں کسی کے گھر کی چھت ایسے ٹپکتی ہو کہ جیسے وہ گھر میں نہیں کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہو تو یہ غربت ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کی بجائے چائے پلانے پر مجبور ہو تو یہ غربت ہے۔ یہ وہ پیمانے ہیں جو کم از کم معیار زندگی کو مدنظر رکھ کر گنوائے جا سکتے ہیں۔ غریبوں کی آواز نامی ایک NGO کے آن لائن سروے کے مطابق 23 ممالک میں 20000 افراد سے پوچھنے پر غربت کے عوامل کا جائزہ لیا گیا کہ احساس کمتری غربت کی سب سے خوفناک شکل ہے ایک اوربین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی جانب سے جاری کیے گئے

تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد، 20 فیصد سے زیادہ غذائیت کی کمی کا شکار ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ 2024 میں دنیا بھر میں کم از کم ایک کروڑ 82 لاکھ یا فی منٹ تقریباً 35 بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، تنازعات اور ماحولیاتی بحرانوں نے سال بھر میں کم از کم مزید 8 لاکھ بچوں کو بھوک کی طرف دھکیل دیا۔ تجزیے کے مطابق 2001 میں 2 کروڑ 15 لاکھ سے زائد بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، 2018 میں یہ تعداد کم ہو کر ایک کروڑ 45 لاکھ رہ گئی

تاہم پھر 2019 میں بڑھ کر ایک کروڑ 53 لاکھ ہوگئی، ایک اندازے کے مطابق 2024 میں کم از کم ایک کروڑ 82 لاکھ بچے غذائیت کی کمی کے ساتھ پیدا ہوئے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 5 فیصد اضافہ ہوا اور پانچ سال پہلے 2019 میں ریکارڈ کیے گئے ایک کروڑ 53 لاکھ بچوں کے مقابلے میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے جب بچوں کی بھوک سے نمٹنے میں پیش رفت کم ہوئی تھی

تنازعات، نقل مکانی، شدید موسمی واقعات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عالمی سطح پر بچوں کی غذائیت میں کمی کا سبب بنایا ہے۔ اس سال بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں میں قحط یا شدید غذائی عدم تحفظ کے تباہ کن حالات کے خطرے سے دوچار ممالک میں پیدا ہونے والے بچے شامل ہیں جن میں جنوبی سوڈان، ہیٹی، مالی اور سوڈان شامل ہیں، جہاں غذائی قلت ملک کی 18 ریاستوں میں سے نصف تک پھیل چکی ہے۔ اس کے علاوہ نومبر کے اوائل میں اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا گیا

تھا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں قحط پڑ سکتا ہے یا پہلے ہی جاری ہے اور آنے والے مہینوں میں فلسطینی علاقوں میں 3 لاکھ 45 ہزار افراد کو تباہ کن بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے کو غذائی قلت سے متعلق ایف اے او کے سالانہ اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ انتباہ بھوک سے متعلق معروف عالمی اتھارٹی انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی طرف سے آیا ہے۔سیو دی چلڈرن‘ میں بھوک اور غذائیت کی عالمی سربراہ حنا اسٹیفنسن کا کہنا ہے کہ اس سال ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچے یعنی فی منٹ 35 بچے ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئے جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی بھوک ایک حقیقت ہے، بھوک کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ بچپن کو ختم کرتی ہے،

بچوں کی توانائی کو ضائع کرتی ہے اور ان کا مستقبل چھیننے کا خطرہ بن جاتی ہے اس لئے بچوں کو کلاس میں کھیلنے یا اپنے دماغ کو وسعت دینے کے لئے آزاد ہونا چاہیے، کسی بھی بچے کو اس بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اگلا کھانا کب ہوگا۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ہمیں خوراک، غذائیت، صحت کی دیکھ بھال، صاف پانی، صفائی، حفظان صحت، سماجی تحفظ اور ذریعہ معاش کی مدد کی اشد ضرورت والے بچوں اور خاندانوں کو انسانی زندگی بچانے والی خدمات کے لیے فوری فنڈنگ اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے،

ہمارے پاس ماضی کی طرح اس وقت غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لئے اقدامات ناگزیرہیں اگر ہم بھوک اور غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نہیں نمٹتے تو ہم بچوں کیلئے کی جانے والی پیش رفت کو مزید بہترکیا جائے۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ خوراک کے بحران میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے کافی مقدار اور مناسب غذائی توازن کے بغیر بچوں کو شدید غذائی قلت کا خطرہ ہوتا ہے، غذائیت کی کمی سے ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے، مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بالآخر یہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔

ان ممالک میں جہاں کم از کم 20 فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، کانگو اس میں سرفہرست ہے جہاں اس سال سب سے زیادہ 16 لاکھ بچوں کی غذائی قلت کے ساتھ پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی تھی جبکہ کانگو اور عالمی سطح پر تنازعات بھوک کی ایک اہم وجہ بنے ہوئے ہیں۔ سیو دی چلڈرن عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ شدید خوراک اور غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات کو حل کریں جس میں تنازعات کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کرنا،

موسمیاتی بحران اور عالمی عدم مساوات سے نمٹنے اور صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ کے زیادہ لچکدار نظام کی تعمیر شامل ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ پوری دنیا کے پسماندہ،ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ایک مربوط حکمت ِ عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غربت دورکی جاسکے ہر نسل، رنگ، مذہب،قومیت سے بالاتر ہوکر غربت کے خاتمہ کیلئے عالمی رہنمائوںکو سوچناہوگا کہ یہی انسانیت کا تقاضاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں