عوام بے یقینی کی سولی پرلٹکے ہوئے ہیں !
پا کستان مسائل کا شکار ہے اور ان مسائل کا حل مذاکرات میں ہے ، حکو مت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہو رہے ہیں، مگر دونوں جانب سے ہی اٹھنے والی اختلافی آوازوں سے مذاکراتی عمل کھٹائی میں پڑنے کا خدشہ پیدا ہو نے لگاہے، حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ بارہ دن گزرنے کے بعد بھی مذاکرات میں ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، اگر پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے تو مذاکراتی عمل میںمشکلات پیش آ سکتی ہیں،جبکہ پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصرکا کہنا ہے کہ حکومت مذاکراتی عمل میں ان سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کرے
کہ جن کے پاس فیصلہ سازی کاختیارات ہے ،یہ صورتحال سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ ان مذاکرات سے توقع کی جا رہی تھی کہ سیاسی جماعتیں اپنے حالات اور تاریخ سے سیکھ کر اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے کے قابل ہو چکی ہیں مگر دو ہفتوں کے دوران ہی ثابت ہورہاہے کہ باہمی اعتماد کے معاملے میں ان سے امیدیں غلط لگائی جارہی ہیں ، وہ بدستور اسی سطح پر ہیں کہ جہاں پہلے تھیں، اس کا نقصان ملک‘ عوام کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی ہوگا۔
اگر دیکھا جائے تو اہل سیاست نفع ، نقصان سے بالا تر ہوتے جارہے ہیں اور مارو مر جائو کی راہ پرہی گا مزن ہوتے جارہے ہیں،انہیں ملک کی معاشی بد حالی سے کوئی غرض ہے نہ ہی عوام کی کوئی پرواہ ہے ، یہ حصول اقتدار اور حصول مفاد میں سب کچھ ہی دائو پر لگائے جارہے ہیں اورقومی مفاد میں ذرا سی قربانی دینے اور اپنی انا ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، یہ عوامی حمایت سے سیاست میں اپنا نام و مقام پیدا کرنے کے بجائے، اپنے لیے کوئی کردار پیدا کر دیے جانے کے ہی خواہشمند دکھائی دیتے ہیں، ہماری سیاسی جماعتوں کا ایسا ہی رویہ جمہوری عمل کی ساکھ کیلئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے،لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان حقائق سے نظر یں چرائی جارہی ہیں ۔
پاکستان آج جس صورتحال سے دو چار ہے ، اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار اہل سیاست خود ہی ہیں،مگر ما ننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کررہے ہیں،بلکہ ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرائے جارہے ہیں ،ایک دوسرے پر ہی سارا ملبہ ڈالے جارہے ہیں ، اس طرح معاملات سلجھ پائیں گے نہ ہی آگے بڑھ پائیں گے ، اگر معاملات سلجھانے ہیں تو سیاسی ہم آہنگی پیدا کر نی ہو گی ، اس کے بغیر سیاسی استحکام آئے گا نہ ہی کوئی معاشی انقلاب لایا جاسکے گا، اس پر حکومت اور حزبِ اختلاف کو مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ وہ خود کو نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں یا ماضی کی سیاست کو اس دور میں بھی اُس طرح ہی لے کر چلنا چاہتے ہیں‘جبکہ اس دور کے تقاضے‘ مطالبے اور مسائل ماضی سے بہت مختلف ہیںکہ جن کومد نظر رکھتے ہوئے آگے چلنا ہو گا۔
اس وقت پا کستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے اور اس میںنوجوان آبادی کا تقریباً سترفیصد ہیں، انہیں تعلیم‘ تربیت اور کام کے مواقع چاہئیں،جو کہ صرف دعووں اور اعلانات سے ممکن نہیں ہے‘ اس کیلئے زمین پر بھی کچھ ہو تا دکھائی دینا چاہئے ،جو کہ اس سیاسی انتشار کے شکار معاشرے میں ممکن نہیں ہے ،اس سیاسی انتشار کے باعث ہی جنوبی ایشیا کے ممالک میں پا کستان ترقی کی شرح میں سب سے پیچھے ہے اور ورلڈ بینک کے تخمینے کے مطابق یہ صورتحال اگلے برس بھی ایسے ہی رہے گی ،
اس سے نمٹنے کے بجائے ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے نمٹنے میں مصروف ہیںتو ایسے حالات میں بہتری کی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں،اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر بھی مسائل کا تدارک نہ کر پائیں تو پھر ان مسائل کے حل کی کس سے اور کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش کے باعث عوام بے یقینی کی سولی پرلٹکے ہوئے ہیں، اس کا بھی فریقین کو احساس ہونا چاہیے، عوام طرفین سے نہ صرف سنجیدگی کی توقع رکھتے ہیں، بلکہ سارے مسائل کا کوئی قا بل عمل حل تلاش کر نے کی بھی اُمید رکھتے ہیں۔