فلسطینیوںکی نسل کشی
جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
غزہ میں باپ کے جنازے پر بیٹا غم سے نڈھال ،سوشل میڈیا پر مظلوم فلسطینی کی ویڈیو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوگئی ایک صحافی کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو میں ایک فلسطینی نوجوان اپنے والد کی شہادت کے بعد درد بھری آواز میں پکارتے ہوئے کہتا ہے کہ ’عرب کہاں ہیں؟ مسلمان کہاں ہیں؟ جاگو لوگو! ہم روز اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔ میرے والد کپڑوں کی دکان چلا کر روزی کما رہے تھے اور انہیں ناحق شہید کردیا گیا۔‘
نوجوان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ دنیا کو ایک پیغام دیتا یہ نوجوان جس کے والد غزہ کے وسطی علاقے میں واقع البریج مہاجر کیمپ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوگئے تھے اسرائیلی فورسز کی غزہ میں تازہ ترین جارحیت کے نتیجہ میں ایک دن میں غزہ میں کم از کم 88 فلسطینیوں کو شہید کردیا گیاجبکہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 45 ہزار 805 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں
جن میں سب سے زیادہ تعداد بچوںکی ہے اور اب تلک2 لاکھ مسلمان زخمی ہوچکے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل پون صدی سے نہتے فلسطینیوں کاقتل ِ عام کررہی ہے اتنی درندگی،اتنی وحشت اور اتنی سفاکیت کی انسانیت بھی شرماجائے غزہ سے مسلسل دردناک خبریں آرہی ہیں اب تو پوری دنیا کے عوام بھی چلااٹھے ہیں کہ غزہ میں دنیا کی بدترین دہشتگردی ہورہی ہے ،
کیونکہ اسرائیلی افواج نے شہری آبادی ، پناہ گزیبوںکے کیمپوں،ہسپتالوں ،تجارتی مراکزمیں اس قدربمباری کی ہے کہ اتنا بارود دوسری جنگ ِ عظیم میں بھی استعمال نہیں ہو ا۔صیہونی جنگی جہاز منصوبہ بندی کے تحت غزہ میںہسپتالوں اورسکولوں پر بمباری کرکے اسے خون سے غسل دے رہے ہیں اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ یہودی فلسطینیوںکی نسل کشی کا مرتکب ہورہے ہیں جو انتہائی خوفناک ہے جنگی قوانین بھی بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں ہسپتالو ں،شہری آبادی اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے پر پابندی ہے
لیکن یہودی اخلاقی اقدار کو پس ِ پشت ڈال کر جس بے دردی سے غزہ میں درندگی کا مظاہرہ کررہے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی جس کے خلاف باضمیر لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے پس منظرمیں یہ قضیہ فلسطین پوری امتِ مسلمہ کا معاملہ ہے ۔اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً حماس کے مجاہدین اس وقت باطل قوتوں کے خلاف مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت اور امتِ مسلمہ کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہوںنے صیہونیوں کے مذموم ایجنڈا کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے
مسئلہ فلسطین ا ور مسجدِاقصیٰ کی حرمت کا معاملہ سابقہ اْمتِ مسلمہ اور موجودہ اْمتِ مسلمہ کے درمیان حتمی معرکہ کی اہم کڑی ہے آج پوری دنیا غزہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ صورت ٍ حال یہ ہے کہ غزہ میں ہزاروں بے گھر افراد اسپتال کی عمارت اور گراؤنڈ کو پناہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں ،پینے کے پانی اور خوراک کی شدید قلت ہے وہاں عارضی ہسپتالوں میںسینکڑوں زخمی موجود ہیںیہاں طبی سہوتوںکا فقدان ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے خوراک ،ادویات اور پانی کی شدید قلت ہے
جبکہ زخمیو ں کو ٹانکے لگاتے وقت سن کرنے والی اور درد کش ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں عارضی کیمپوںپربھی وقتاً فوقتاً بمباری سے درجنوں افراد شہید ہو جاتے ہیں اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کا رویہ انتہاپسندانہ ہے ،اسرائیل فلسطینیوں کی نسلی کشی کر رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ غزہ میں جنگ ختم ہو، یہودی انتہا پسند حکومت فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے اب بڑی طاقتوں کی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو اس درندگی سے روکیں کیونکہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے تمام فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ لبنان‘ ایران اور مغربی کنارے میں بھی کشیدگی کم ہونی چاہئے اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جائے
لیکن اسرائیلی وزیر اعظم ناس بات پر مصر ہیں کہ آخر تک لڑیں گے، تمام مقاصد حاصل کریں گے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی دنیا سے امن کی اپیل بھی کررکھی ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوںپر کس قدرقیامت خیز مظالم کئے جارہے ہیں یہ قتل و غارت درحقیقت انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیرکاامتحان ہے امریکہ نے اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں آج تلک پوری نہیںکیں جس سے مسئلہ مزید الجھ گیاہے یہ خوفناک سچائی ہے کہ امریکہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اس تنازعہ میں اصل رکاوٹ ہے کیونکہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دینے کے باوجود حماس نے پانچ چھ سال قبل غالباً2017ء اسرائیل اور فلسطین پر مشتمل میں دو خود مختار ریاستوں کے قیام کو ایک عملی حل کی تجویز پیش کی تھی جسے مان بھی لیا گیا لیکن اس پر عملی طور پر کوئی پیش رقت نہیں ہوئی اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا مطمع ٔ نظر مسئلہ حل کرنے کی بجائے
فلسطینیوںکی نسل کشی ہے جبکہ حقیقتاً امریکہ کے بغیر اقوام متحدہ کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا محال نہیں سکتا عالمی امن کے سنگین خطرے کے باوجود امریکہ کا رویہ اور اقوام متحدہ کی کارکردگی مسلم ممالک کیلئے نہایت مایوس کن ہے کیونکہ جب بھی کوئی حل نتیجہ خیز ہوسکتا ہے تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کرکے بھاری اکثریت کی حامل قراردادوں کو بھی بے اثر ،بے وقعت بنادیتاہے جس سے یہ بات اخذکی جاسکتی ہے کہ اقوامِ متحدہ عملاً ایک نمائشی ادارہ بن کررہ گیا ہے جس کی وجہ سے عالمی امن کو لاحق خطرات دور نہیں ہوسکتے دنیاکے منصفوںکی سمجھ میں یہ بات جتنی جلدی آجائے ان کے حق میں بہترہے۔