روشن مستقبل کے جھوٹے خواب !
ملک میںبڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری بہت سے دوسرے مسائل کے علاوہ انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے کے پھیلائو کا سبب بھی بن رہی ہے،اس کا زیادہ شکار غریب اور متوسط طبقوں کے نوجوان بن رہے ہیں،جوکہ بہتر زندگی کی آس میں غیرقانونی طریقوں اور انجانے راستوں سے بیرونی ممالک کا رخ کررہے ہیں،
انسانی اسمگلر نوکری کا جھانسہ دے کر ان سے لاکھوں روپے بٹورتے ہیںاور ملک سے باہر روانہ کردیتے ہیں، یہ بیرون ملک جانے والے مجبور لوگ راستے ہی میں حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا متعلقہ ملک میں پہنچتے ہی غیرقانونی داخلے پر گرفتار کرلیے جاتے ہیںاور برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔
یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ایک بڑی تعدد میں بروز گاری سے تنگ آئے لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں اور ایک کے بعد ایک حادثات ہورہے ہیں ، لیکن اس کی روک تھام کیلئے کوئی سنجید گی دکھائی جارہی ہے نہ ہی بیروز گاری کم کر نے اقدامات کیے جارہے ہیں،حالیہ برسوں میں لیبیا کے راستے کشتیوں میں اٹلی اور یونان جانے والے سیکڑوں افراد سمندر کی نذر ہوگئے ، لیکن حکو مت کے اعلی عہدیداروں نے ماسوائے مذمت و افسوس کے کچھ بھی نہیں کیا ،اب سکھر کے سیشن جج نے ایک یونانی کشتی کے حادثے میں ایسے ہی 75افراد کی ہلاکتوں پر حکومتی ذمہ داروں کی غفلت کا نوٹس لیا
اور وزیراعظم، وزیرداخلہ ، وزیر خارجہ کو 15جنوری کو عدالت میں طلب کیا توحکومت حرکت میں آئی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سختی سے ہدایت کی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے سہولت کار سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے،ان کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کیے جائیں اور انھیں نشان عبرت بنایا جائے، لیکن کیا انسانی سمگروں کو نشان عبرت بنا یا جاسکے گا ، جبکہ اُن کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے تو انسانی سمگلنگ کسی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ، اس کی پوری پشت پناہی کی جارہی ہے اور اس گندے دھندے میں سارے ہی شر یک کار ہیں ،اس لیے ہی ایک کے بعد ایک حادثات ہورہے ہیں ، مگر ماسوائے ہدایات و اعلانات کے کچھ بھی عملی طور پر دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ایک بار پھر وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات بیرون ملک نوکریوں کیلئے صرف قانونی طریقے اختیار کرنے کی آگاہی مہم چلائے،تادیبی کارروائی کیلئے سخت تعزیری اقدامات کیے
جائیںاور دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی اسمگلنگ کا دھندا چلانے والے پاکستانیوں کی جلد از جلد پاکستان حوالگی کیلئے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے ،وزیراعظم نے ایک طرف انسانی سمگلروں کے خلاف ہدایات جاری کی ہیں تو دوسری جانب انسانی اسمگلروں کی مدد کرنے والے سرکاری اہل کاروں کے خلاف ایف آئی اے کی مہم کو بھی سراہا گیاہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے اورایسے ٹیکنیکل اداروں کی ترویج کی جائے،
جوکہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تربیت یافتہ پیشہ ور افراد بیرون ملک فراہم کیے جاسکیں،لیکن یہاںضرورت مند انسانی سمگلروں سے بچتے ہیں تو وزراء کے ایجنٹوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں ، ان کے خلاف کاروائی تو دور کی بات ، کہیںشکایت بھی نہیں ہوتی ہے۔اس وقت ہنرمند اور پڑھے لکھے لوگ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بیرونی ملکوں کا رخ کررہے ہیں،یہ صورتحال ایسے ہی جاری رہی تو ملک کے اندر ایسے افراد کی قلت پیدا ہوجائے گی، جو کہ ملکی معیشت کیلئے شدید نقصانات کا باعث بنے گی
،کوئی بھی ایسا ملک جوکہ معاشی ترقی کا خواہش مند ہو،برین ڈرین کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، لیکن سارے حاد ثات کے باوجود لوگ باہر جارہے ہیں ، کیو نکہ یہاں پر انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے تو جان کا رسک لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،وزیراعظم نے انسانی اسمگلروں کے خلاف جن تعزیری اقدامات کا اعلان کیا ہے
،ان پر سختی سے عمل درآمد ضرور ہونا چاہئے، لیکن اس کے ساتھ روز گار کے مواقع بھی مہیا کیے جا نے چاہئے ، اس کے ساتھ بیرون ملک روزگار سے بھی ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے،مگر صرف قانونی طریقوں سے ہی اُٹھا نا چاہئے ، اس کیلئے اداروں کو اپنا کرادار ادا کر نا ہو گااور مستقبل سنوارنے کے خوہشمندوں کا مستقبل سنوارنا ہو گا ۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری سطح پر اور غیر سرکاری طور پر عام لوگوں میں اس معاملے کی سنگینی کے متعلق آگہی پیدا کی جائے، انھیں سمجھایا جائے کہ یہ خالص نقصان کا سودا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی کی جائے ،جو کہ اس مافیا کی بیخ کنی میں معاون ثابت ہو اور ایسی سزائیں دی جائیں کہ جس سے ایسے دھندے میں ملوث لوگ عبرت پکڑیں، ورنہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور سادہ لوح اور کم تعلیم یافتہ لوگ اپنی جان و مال گنواتے ہی رہیں گے۔