وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی !
ملک میں سیاسی استحکام ہو گا تو ہی معاشی استحکام لایا جاسکے گا ، اس کا اہل سیاست اور اہل ریاست دونوں کو ہی بخوبی ادراک ہے ،لیکن اس جانب کوئی سنجیدہ پیش رفت دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کے دور ضرور چل رہے ہیں ،مگر حکومتی وزراء کے طرز عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، حالانکہ ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا ہے
کہ حکومت نہ صرف تحریک انصاف سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کرے ،بلکہ بہتر ہو گا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی دیگر جماعتوں کو بھی ان مذاکرات کا حصہ بنا کر وسیع تر قومی مفاہمت اور سیاسی استحکام کا راستہ تلاش کیا جائے کہ اس میں ہی جمہوریت کی بقا اور ملک و قوم کی فلاح ہے!
اس ملک میں کسی ایک نے بھی کبھی جمہوریت کی بقا کے بارے سوچاہے نہ ہی ملک و قوم کی فلاح کا کبھی خیال رکھا ہے ،اس ملک میں جمہوریت کے علمبر داروں نے ہی جمہوریت کو اپنے پائو تلے روندا ہے اور ملک و قوم کی فلاح کو پس پشت ڈالے رکھا ہے ، اس ملک میں جو بھی آیا ہے ،اس نے بڑے بڑے وعدے اور دعوئے ضرور کیے ہیں ،مگر اپنے کسی ایک دعوئے پر پورا اُتر ے ہیںنہ ہی اپنا کوئی وعدہ پورا کر پائے ہیں ،
یہاں پر ہر حکومت کا طرز عمل ،وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا،سے مختلف دکھائی نہیں دیتا ہے، اس کے باوجود آزمائے کو ہی آزمایا جارہا ہے اور عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ ان آزمائے ہوئے حکمرانوں کے چھوٹے دعوئوں اور جھوٹے وعدئوں پر یقین کریں ، عوام ایسا کچھ کر ہے ہیں نہ ہی ان آزمائے ہوں کا ساتھ دیے رہے ہیں ،عوام ان کے خلاف سراپہ احتجا ج ہیں، بلکہ ان کے ہر ظلم و جبر کا بڑی دلیری سے مقابلہ بھی کررہے ہیں۔
عوام بار ہا آزمائے حکمرانوں اور آزمائی حکو مت سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، عوامی امنگوں کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی کا ذریعہ صرف عام انتخابات ہیں، لیکن اگر انتخابات ہی ڈھونگ ہوں، جیسا کہ فروری 2024 میں اربوں روپے لٹا کر ڈراما رچایا گیا تو موجودہ صورتحال میں پاکستان میں غیر جانبدار صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد بعید از قیاس ہے
،اس ملک میںجب تک فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کے ذریعہ بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں رد و بدل کی تحقیقات اور ذمے داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور نتائج کے رد وبدل کے ذریعہ اسمبلی میں آنے والے افراد کو تاحیات نا اہل قرار نہیں دیا جاتا تواس وقت تک کوئی بھی انتخاب معتبر اور قابل قبول نہیں ہوگا۔
افر دیکھا جائے توگزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی ہی سب سے زیادہ متاثر فریق ہے، اس سے فارم 47 کے ذریعہ حق حکمرانی چھینا گیا ہے، لہٰذا اسے ہی آگے بڑھ کر اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ایک پر امن تحریک شروع کرنی چاہیے تھی، جو کہ اب تک نہیں کی جاسکی ہے،
گو کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہت چکا ہے، لیکن اگر اب بھی پی ٹی آئی طاقتورحلقوں کی جانب دیکھنے کے بجائے کم سے کم نکاتی ایجنڈے پر متاثرہ جماعتوں کو متحد کرے اور اس کو لیڈکرے تو عوام کا ایک بپھرا ہوا سمندر فارم 47 کی متاثرہ جماعتوں کی پشت پر ہوگا ،اس کے مطالبات نظر انداز کرنا نہ کسی طاقتور کے بس میں ہوگا نہ ہی اس تحریک کے سامنے کوئی حکمران ٹھیر سکے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہل وطن سوچیں اور اہل ریاست بھی فیصلہ کریں کہ اب تک ان آزمائی اتحادی جماعتوں کے دور حکومت میں ملک و عوام کے حالات بدلے نہ ہی کوئی تبدیلی لائی جاسکی ہے ،بلکہ سیکورٹی خطرات میں ا ضا فہ ہی ہورہا ہے تو پھر کون ہے، جو کہ اس ملک اور اس کے عوام کے حالات بدل سکتا ہے؟
مہنگائی کا خاتمہ بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں کمی لا سکتا ہے؟، حکومتی اخراجات میں کمی، وزیروں، ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کی ناجائز مراعات ختم کرسکتا ہے؟، مسئلہ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور کشمیر کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور عملی قدم کی جانب بڑھ سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہی پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل مضمر ہے، اس اہم سوال کا جواب تلاش کر نا ہو گا اور اس اندھیر ے میں عوام کی ہی اُمید کا چراغ جلانا ہو گا ،یہ چراغ جلیں گے تو ہی روشنی ہو گی ، اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔
جنہیں حقیر سمجھ کر بھجا دیا تو نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی !