مشروط مذاکرات نہیں چلیں گے!
اس مذاکرات کے شور میںتحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا انجام تو وہی ہو گا کہ جس کا اندازہ پہلے سے ہی لگایا جارہا تھا،حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے نہ ہی تحریک انصاف کوئی دلچسپی دکھارہی ہے اور اب حکومت سے مذاکرات کرنے والی تحریک انصاف کی کمیٹی نے تیسرے مذاکراتی دور کیلئے دو شرائط کے ساتھ مذاکرات کی تیسری نشست پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس پرحکومت کا ردعمل بھی ویسا ہی ہو گا ‘ تاہم مذاکرات کو شرائط سے منسلک کرنا مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے ہی مترادف ہو گا۔
اگر دیکھا جائے تو سیاسی فریقین کے مذاکرات کی کامیابی کیلئے ضروری تھا کہ اس عمل کے شروع میں ہی ایسے کوئی مطالبے یا شرائط سامنے نہ آتیں اور کوشش کی جاتی کہ فریقین کے مابین اعتماد بحال ہوتا، اس کے بغیر مذاکرات یا مفاہمت کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے، اس سیاسی مذاکرات کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے ، مگر پی ٹی آئی کی شرائط اور حکومتی رویے کی وجہ سے مذاکرات کیلئے سنجیدگی اور خلوصِ نیت کا تاثر قائم نہیں ہو پارہا ہے اورایسا لگ رہا ہے
کہ جیسے دونوں ہی فریق مذاکرات کی رسمی کارروائی پوری کررہے ہیں،اس رسمی کاروائی نکلنا ہو گا اور دونوں کو ہی سنجیدہ رویہ اختیار کر ناہو گا، حکو مت کوئی انتقامانہ کاروائی کرے نہ ہی اپوزیشن کوئی شرائط عائد کرے تو ہی آگے بڑھا جاسکے گا۔
اس ملک کو سیاسی بے یقینی کے ماحول سے نکالنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اپنا مثبت کا کردار ادا کر نا ہو گا ،اس وقت ضروری ہے کہ سیاسی فریقین اپنے اختلافات کو قومی مقاصد اور مطالبات کے تابع کریں اور ایک دوسرے کیلئے لچک کا مظاہرہ کریں، اس سے بڑی کوئی قومی خدمت نہیں ہو سکتی کہ قومی مفاد میں سیاسی اختلافات کو بھلا کر کوئی نئی پہل کی جائے، اس وقت جلتی آگ پر تیل ڈالنے والے تو بہت ہیں،
مگر اس جلتی آ گ کو ٹھنڈا کرنے والا کوئی نہیں ہے، ہمیں جلتی آگ کو بو جھا نے اور دلوں کو ملانے والے مخلص رہنمائوں کی ضرورت ہے ،اس ملک کاسیاسی دامن ایسے افرادِ کار سے خالی نہیں ہے ، جو کہ سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کر نے کی بات کرتے ہیں ، مفاہمت کا راستہ اختیار کر نے کی بات کرتے ہیں، مل بیٹھ کر سنجید گی سے اپنے معاملات خود حل کر نے کی بات کرتے ہیں
،اس کرادار کو ہی مزید متحرک کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے ایک اچھی پیش رفت رہی ہے کہ سپیکر سردار ایاز صادق نے سیاسی فریقین کی مذاکراتی کمیٹیوں کے مل بیٹھنے کا انتظام کیاہے توانہیںمذاکراتی عمل کو ناکام ہونے سے بچانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،اس میں ان کے ساتھ حکمران اور حزبِ اختلاف کی صفوں سے مزید کئی لوگ شامل ہو سکتے ہیں، جو کہ سیاسی ہم آہنگی کا خیال کرتے ہوئے
آواز بلند کرتے رہتے ہیں،اس سیاسی تلخیوں کے ماحول میں متعدل مزاج رہنما ہی مجسم امید ہیں، اس کیلئے ضروری ہے کہ مذاکراتی کمیٹیوں کے اختلافات یا ڈیڈ لاک کی صورتحال کو دور کرنے کے لیے دونوں جانب سے ایسے لوگ آگے بڑھیں اور کوئی درمیانی راہیں نکالنے کی کوشش کریں ، اگر اس بار بھی مذاکرات ناکام ہو ئے یا کوئی ڈیڈ لاک آیا تو ایسی بات بگڑے کی کہ دوبارہ سنبھل نہیں پائے گی۔
یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی قوتیں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سنجیدگی سے سوچیں اور اس پر عملی اقدامات کریں،یہ عوام کے ساتھ مقتدرہ اور کچھ مخصوص سیاست دانوں کا، سیاست ،کے نام پر کھیل کب تک ایسے ہی جاری رہے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کیونکہ اگر اس کا جواب تلاش نہ کیا گیا تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے،ایک طرف بلوچستان سے خیبر پختون خوا تک حالات تشویشناک ہیںتو دوسری جانب امریکا، بھارت اور دیگر دشمن عناصر موقع کی تاک میں بیٹھے ہیںاور انہیں بار بار موقع دیا جارہا ہے
کہ مداخلت کر یں اور ملک کے استحکام کو نشانہ بنائیں، اس لیے ضروری ہے کہ قوم کے ساتھ مذاکرات کے نام پر جاری کھیل تماشے کا بھی خاتمہ کیا جائے اور ملک میں سنجیدگی سے سیاسی استحکام لا کرترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کیا جائے،اس میں سب کی بہتری اور سب کا ہی بھلا ہے۔