جینا بھی عذاب 24

ترقی کا پیمانہ

ترقی کا پیمانہ

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

میری اس سے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی کبھی کبھی حوادث ِ زمانہ سے گبھرا کر میں ایک ڈھابا ٹائپ ہوٹل میں گھنٹوں بیٹھ کر تلخی ٔ ایام کو چائے کبھی کافی کی پیالیوں گھول کر پینے کی کوشش کرتا اس دن نہ جانے کیوں خلاف ِ معمول ڈھابا میں بڑا رش تھا میں چائے کی چسکی لیتاہوا فضا میں دور کہیں خیالوںمیں کھویا ہوا تھا کہ ایک آواز سماعت پر حاوی ہوگئی کسی نے بڑے مہذب اندازمیں پوچھا تھا جناب میں یہاں بیٹھ سکتاہوں وہ نہ بھی پوچھتا تومیں کون سا ڈھابے کا مالک تھا میں نے ایک نظر اسے دیکھا چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا جناب تشریف رکھئے وہ ایک عام سا شخص تھا

لیکن اس کی شخصیت میں عجب کشش تھی۔میں نے کہا آپ نے میری میزکاانتخاب کیا ہے تو یہ میرے لئے اعزازکی بات ہے اس لحاظ سے آپ میرے مہمان ہیں کیا پسندفرمائیں گے۔ ‘‘ یہاں تو سب ہی مہمان ہیں ۔۔ اس نے کمال کا فلسفہ بگھاڑتے ہوئے کہا میں تو کبھی کبھاریہاں چائے پینے کے لئے آتاہوں آج بھی چائے ہی پیئوں گا آپ کا مہمان بننا خوب رہا۔ ابھی چائے سرو نہیں ہوئی تھی کہ وہ بڑبڑا ۔۔۔ عوام نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا کس بات کا۔۔ میں نے استفسارکیا اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے

مٹھی بھینجتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا میرے بس میں ہو توگریڈ17 سے لے کر وزیراعظم تک تمام لوگوں کی مراعات ہنگامی بنیادوںپر ختم کر دوںغریبوں نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ایک سے بڑھ کر ہڈحرام،نکمے، ویلے اس ملک کو جونکوںکی طرح چمٹے ہوئے ہیں ۔۔ وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلا گیا یہ ہٹے کٹے خود کفیل، کروڑ پتی ارب پتی سیاستدان، بیوروکریٹس، سرکاری افسر ان اور اسٹیبلشمنٹ کا آخرہم کب تلک بوجھ اٹھاتے پھریں گے؟
’’ہم کربھی کیا کرسکتے ہیں میں نے لقمہ دیا
’’ہم آواز اٹھا سکتے ہیں وہ بولا لوگوںکو شعوردلاسکتے ہیں اپنے حق کے لئے آواز نہ اٹھانے والے بزدل ہیں ،منافق ہو اور انہی کی وجہ سے اشرافیہ ہمارے ٹیکسزکے پیسوں پر عیاشیاں کرتی پھرتی ہے ۔ اس نے میز پر مکہ مارتے ہوئے کہا آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذمہ دار خود غرض بے حس اشرافیہ ہے میں اور آپ نہیں ذرا سوچئے اور مکمل سوچئے۔۔۔ ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 210 روپے لیٹر پٹرول خریدیگا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر،مشیر، آرمی افسران، ججز، بیوروکریٹس کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے

ور آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسٹڈی ختم کرنا ہو گی،کچھ تو قربانی دینا ہوگی فرض کریں اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباً 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہی ہے وہ ناسور جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ ہر حکمران اور اشرافیہ صرف عوام کو قربانی کا بکرابنانا چاہتی ہے

وہ خود کوئی قربانی نہیں دینا چاہتی نہ کوئی اپنی مراعات سے دستبردارہونے کو تیار ہے یار یہ لوگ کچھ تو خدا کا خوف کریں جناب آپ کی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ: ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہئے۔ اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہیئں۔ اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہیئں۔ اشرافیہ کا یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونا چاہیے۔ اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہیئں۔ اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہیئں۔

غیر ضروری تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہیئں یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں وزیراعظم کا دوست ممالک سے ہروقت قرض مانگتے رہنا ،مراعات کا تقاضا کرتے رہنا یا پھر وقت بے وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کا راگ الاپتے رہنا غزت ِ نفس کو مجروح کرنے والی بات ہے پاکستان کے معاشی بحران کے تناظر میں دوست ممالک آخرکب تلک کتنی امداد دیتے رہیں ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے اور جناب قرض پہ قرض لے کر معیشت کی بحالی کے امکانات کیونکر روشن ہو سکتے ہیں؟۔
” آج وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نیا مژدہ سنایاہے کہ ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو 10سال کے سی پی ایف کے تحت 20 ارب ڈالرز کے وعد ہ کیا ہے جس پر ن لیگ کارکن اور وزیر مشیر لڈیاں ڈالتے پھررہے ہیں یہ ہوتاہے لیڈر اسے کہتے ویژن
’’ تم بھی کمال کرتے ہو نہ یہ کوئی خوشخبری ہے نہ کوئی ویژن البتہ مہنگائی کی ماری ،بھوک سے بلبلاتی عوام، مسائل میں زندہ درگود قوم جس کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے وہا ں کے ایک محکمے FBR نے ایک ہزار دس نئی کاروں کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے یہ گاڑیاں بنیادی سکیل اٹھارہ تک کے افسر انسپکٹرز کو سیلز ٹیکس انکم ٹیکس فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنے کیلئے دی جائیں گی گاڑیاں بنیادی سکیل 18تک کیافسران، انسپکٹرز کو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصولی کیلئے دی

جائینگی کاروں میں نیویگیشن سسٹم، ریورس کیمرا، ہائی گریڈ انٹیریئر، ، چار سال یا 1لاکھ کلومیٹر کی ایکسٹینڈڈ وارنٹی بھی شامل ہیں یہ گاڑیاں جدید فیچرز کے ساتھ فراہم کی جائیں گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ FBR نے ان گاڑیوں کی خریداری کیلئے 3ارب روپے کی پیشگی ادائیگی کا اعلان کیا ہے پہلی کھیپ میں500گاڑیوں کی ترسیل مکمل کی جائیگی پہلے مرحلے میں جنوری 2025میں 75 گاڑیاں، فروری 2025میں 200گاڑیاں اور مارچ 2025میں 225گاڑیاں فراہم کی جائینگی۔ دوسرے مرحلے میں اپریل 2025 میں 250گاڑیاں اور مئی 2025میں 260 گاڑیاں فراہم کی جائینگی۔ وہ بڑی مریل سی آواز میں بولا اب بتائو جس ملک میںصرف ایک محکمہ حاتم طائی کی قبر لات مارتے ہوئے 3ارب کی عیاشی کرکے ڈکاربھی نہ مارے اسے غیرممالک سے قرض لینے کی کیا ضرورت ہے۔
’’ہم کربھی کیا کرسکتے ہیں میں نے جزبز ہوکر جواب دیا اس سے پہلے ارکان ِ اسمبلی اور ججز کی تنخواہوںمیں ہوشربا اضافہ کیا جاچکاہے کوئی ادارہ، کوئی محکمہ یا کوئی شخصیت ٹس سے مس نہیں ہوئی اس ظلم کے خلاف کسی سیاسی جماعت نے احتجاج تک نہیں کیا حالانکہ بیشتر سیاستدانوں اور پارٹی رہنمائوںنے پیٹ میں اکثر غریبوںکی ہمدردی کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں ۔
’’ اس کا صاف صاف مطلب ہے یہ سب اندر سے ایک ہیں اب ملک کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اس کاسارا بوجھ عام آدمی پر پڑے گا مہنگائی بڑھے گی تو غریب خودکشیاں کریں گے اشرافیہ کے تو مزے ہی مزے ہیں
میرے خیال میں۔۔ وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلاگیا اس سسٹم کو اب تیزاب سے غسل کی ضرورت ہے۔
’’ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ میں نے استفسارکیا وہ گہری سوچ میں پڑ گیا پھر بولا تو پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا پھر تو
حکمران غیر ممالک کے یہ دورے امداد کے حصول کے لئے نہیں سیر سپاٹوںکے لئے کرتے پھرتے ہیں”۔ یہ واضح اور دوٹوک امر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری قیادت کے تلوں میں تیل نہیں یہ آنیاں جانیاں ادھر ادھر چھلانگیں لگانے کی مثال تو آج کے حکمرانوں پر صادق آتی ہے یہ چھلانگیں ہی ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں