احتیاط کریں مایوسی مت پھیلائیں!
ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں،ایسے میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے ،ایک طرف عام آدمی اپنی ر وز مرہ کی ضروریات کی عدم تکمیل پر نفسیاتی عذاب کا شکار ہے تو دوسری جانب حکمران طبقہ ہے کہ اس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے،عوام کو رلیف دینے کیلئے خزانہ خالی ہے اور ارکان پار لیمان کی تنخواہیں و مراعات دینے کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں ،یہ کیسا تذاد ہے کہ عوام کو مشکلات سے دو چار کر کے اپنوں کو ہی بار بار نوازا جارہا ہیاور عوام کومایوسی کی گہری دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ حکمرانوں کو ارکان پار لیمان کی کم تنخواہیں دکھائی دیتی ہیں ،مگر عوام کی بد حالی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، عوام کمٓ آمدن کے ساتھ انتہائی مہنگائی سے بے حال ہیں، لیکن ارکان پار لیمان کو ہی نوازا جارہا ہے اور عوام سے کہا جارہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کا بو جھ نہ ہوتا تو مہنگائی میں کمی لائی جاسکتی تھی ، آئی ایم ایف کے پاس کون بار بار جارہا ہے اور اس کا سارا بوجھ عوام پر کون لاد رہا ہے ؟ اس کے ذمہ دار خود ہی عوام کو بہلا رہا ہے اور بہکارہے ہیں اور اپنے اخراجات میں کوئی کمی نہیں لارہے ہیں ، بلکہ اس میں پے در پے اضافہ ہی کیے جارہے ہیں۔
اس وقت ہونا تو چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا ،اس کے برخلاف اپنی ہی مراعات میں اضافہ کرکے عوام کو پیغام دیا جارہا ہے کہ جنہیں اپنا مسیحا، ہمدرد و خیرخواہ سمجھا جارہا ہے، وہ ایسے نہیں ہیں،انہیں عوامی مشکلات اور مسائل کے حل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے، ایک ایسا ملک جس پر 120 ارب ڈالر سے زاید کے بیرونی قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہے، اس ملک کا عام شہری تک قرض کے بوجھ تلے دبا ہے،
جہاں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، جہاں40 فی صد سے زاید افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،جہاں خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اورمہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کررکھاہے، غریب دو وقت کی روٹی کو ترستے رہا ہے، وہاں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومتی ارکان اور عوامی نمائندوں کو عام عوامی مسائل و مشکلات کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔
یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیا نیہ دہرانے والے اور ملک میں ’’انصاف‘‘ کا بول بالا کرنے کا عزم رکھنے والے ان مراعات کے حصول کے لیے اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ہی پیج پر نہ صرف نظر آرہے ہیں، بلکہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے وقت کوئی عار بھی محسوس نہیں کرہے ہیں، اس موقع پر کسی کو بھی عوام یاد آرہے ہیں
نہ ہی عوامی مسائل دکھائی دیے رہے ہیں،اس کے بعد بھی ایسا نہیں ہے کہ یہ ارکانِ اسمبلی مالی آسودگی پانے کے بعد عوامی مسائل و مشکلات کے لیے یکسو ہو جائیں گے اور ساری مراعات کے بعد بھی عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے میدان ِ عمل میں کود پڑیں گے،یہ کل بھی اپنے ہی مفادات کے اسیر تھے ،یہ آج بھی اپنے ہی مفادات کو تر جیح دیے رہے ہیں ۔
یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنا حکومت کی ترجیح ہے نہ ہی ان دیگرسیاسی جماعتوں کی تر جیحات میں عوام شامل ہیں ،جو کہ سبز باغ دکھاکر ایوان تک پہنچتی ہیں، آج عوام کس صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں کن معاشی مشکلات کا سامنا ہے؟ اس بارے کوئی سوچ رہا ہے نہ ہی گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے لیے کچھ کررہا ہے، اس حکومت نے ایک مزدور کی جو تنخواہ مقرر کررکھی ہے،
کیا وہ تنخواہ ایک مزدور اور اس کے خاندان کے لیے کفالت کا باعث ہے؟ کیا اس مہنگائی میں عام آدمی کو ملنے والی تنخواہ میں کوئی اقتصادی جادوگر چار پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنا سکتا ہے؟ ایک جانب کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب اس نوع کے اقدامات کیے جاتے ہیں کہ جن سے عوام میں سخت مایوسی اور بددلی پھیلتی جارہی ہے۔
یہ مانا کہ بدگمانی اور مایوسی گناہ ہے، مگر حقیقت کا اظہار کیا جائے تو ہماری حکمران اشرافیہ نے پاکستانی عوام کا اس بری طرح استحصال کیا ہے کہ ان کو ایسے مایوسی کے تاریک غاروں میں دھکیل دیا ہے
کہ جن سے نکلنے کے لیے ان کو اب کوئی افواہ بھی متاثر کن نہیں لگتی اور جس ریاست سے اس کی قوم اتنی مایوس ہو جائے تو اس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگنے لگتا ہے کہ ہم اس سے پہلے بھی ایسی ہی چوٹ کھا چکے ہیں، ایک بار پھر کھائی تو سنبھل نہیں پائیں گے ،اہل سیاست کو اپنے رویئے بدلنا ہو ں گے ،عوام کے مسائل حل کر نا ہوں گے ،ورنہ یہ عوام میں پھیلتی مایوسی سب کو ہی لے دوبے گی۔