ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 30

اسلامی جہادی جذبات کی ترجمانی، فلسطینی بچے کی زبانی

اسلامی جہادی جذبات کی ترجمانی، فلسطینی بچے کی زبانی

نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707

پہلے خلافت راشدہ سے خلافت عباسیہ، خلافت بنو امیہ سے ہوتے ہوئے خلافت عثمانیہ تک، دو تہائی عالم پر پورے تیرہ سو سال تک کامیاب اور امن پسند انسانیت نواز اسلامی حکومت بعد،یہود و نصاری و لادینی، دشمن اسلام قوتوں کے اشتراکی سازشآنہ ذہنیت اور مشترکہ حربی تگ و دو بعد، حرمین شریفین والے خطہ عرب حجاز میں خلافت عثمانیہ کے گورنر جو اس وقت شریف مکہ کے نام نامی سے جانے تھے جارڈن کے کنگ حسین کے دادا آل ہاشمی خاندان کے فرزند حسین بن علی نے انگریزوں کی سالاری والے یہود و نصاری حربی گٹھ جوڑ سے ساز باز کئے، خلافت عثمانیہ کے خلاف جب بغاوت کا علم بلند کیا تھا، تب خلیفہ عبدالحمید نے،جو خود بہت بڑے عاشق رسول ﷺ بھی تھے،

ارض مقدس پر مسلمانوں کا خون بہاہونے سے بچنے اور بچانےہی کے لئے، بنا لڑے عرب پیننسولا حجاز علاقے سے دستبردار ہونے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ہم مسلمین ہی میں سے، غداروں کے سامنے آنے کے بعد، خلافت عثمانیہ کے کمزور ہوتے تناظر میں،یہود و نصاری یورپ و امریکی مشترکہ افواج کے سامنے، 1923 خلافت عثمانیہ کے شکست کھاتے، سکوت ترکیہ بعد، حسین بن علی نے،اپنے آپ کو، پورے عرب علاقے حجاز کا خلیفہ ہونے کا اعلان کیا تھا،لیکن یہود و نصاری عالمی سازش کنان نے، خلافت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے بعد، عرب علاقے کی خلافت یا شہنشائیت شریف مکہ،حسین بن علی آل ہاشمنی کو جو دینے کا وعدہ کیا تھا اپنے وعدے سے مکرتے ہوئے، خلافت عثمانیہ کے بعد کوئی اور مسلم خلافت یا مملکت طاقت ور بن نہ پائے

اسلئے پورے عرب پینسولا کو مختلف حصوں میں بانٹتے ہوئے،ان کے اشاروں پر جی حضوری کرنے والے مختلف عرب ٹرائبل لیڈران کو، عرب شاہان کے طور نامزد کردیا تھا تو دوسری طرف، عرب علاقوں کی بندربانٹ بعد، بعض عرب علاقوں کو یہود و نصاری حربی فریق برطانیہ فرانس اٹلی کی تابع داری میں دیتے ہوئے ان علاقوں کے والی یا حکمران انہیں بناتے ہوئے، خلافت راشدہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں،بغیر لڑے، بغیر کسی فرئق کا خون بہائے، قوم مسیحی کی ایماء و مشورے پر، قوم یہود کو ارض فلسطین سےبے دخل کئے، بیت المقدس کو آزاد کئے، قوم یہودکو وہاں سے جو کدھیڑا تھا،

اس پر پورے تیرہ سو سوا تیرہ سو سال گزرنے کے بعد، اس وقت کی عالمی سوپر پاور یہود و نصاری حربی قوتوں نے،بڑی ہی سازشانہ حکمت عملی کے ساتھ، برطانیہ کے حصہ میں ارض فلسطین پر، پورے عالم میں بکھرے،یہودیوں کو، عرب ممالک کے بیچوں بیچ لا بسانا شروع کردیا تھا۔ اور جب ریگزار عرب میں پیٹرول زخائر کا پتہ چلا تو صاحب امریکہ نے 1933 میں سعودی عرب سے 50 سالہ دو میعادی عقد شراکت(ٹریڈ ایگریمنٹ) کئے پیٹرول نکالنا شروع کیا تب، پھر عرب شاہان کو ڈرا دھمکا اپنے قابو میں رکھنے ہی کی نیت سے، سکوت خلافت عثمانیہ بعد، عالم پر امریکی عوامی دھوکے والی جمہوری حکومت کے تحت بنائے کے گئے،اقوام متحدہ پر، اپنی مکمل بالادستی کے چلتے،

ارض فلسطین پر لا بسائے گئے یہودیوں پر مشتمل عرب ممالک کےبیچوں بیچ ایک غندہ طاقت کے طور، نہ صرف یہودی ریاست کو 14 مئی 1948 وجود بخشا گیا تھا بلکہ اس وقت کی مشترکہ عالمی قوت، اسلام دشمن مسیحی حکومت روس و امریکہ نے سازشانہ طور عربوں پر بالادستی قائم کرنے، اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں قوم یہود، اہنی جارحیت سے عرب علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے، نہ صرف طاقت ور تر بنتی جارہی تھی بلکہ تین ہزار سال قبل والے، قوم یہود پر اللہ رب العزت کی طرف سے اتارے گئے اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام، وقت والے مملکت یہود کے حدود و اربعہ پر مشتمل، کئی ایک عرب علاقوں سمیت مملکت سعودی عرب کے تبوک سے مدینہ المنورہ خیبر علاقے تک پر مشتمل گریٹر اسرائیل بنانے کا اعلان، یہودی حکومت برملا کرنے لگی تھی۔

اور مختلف عرب ممالک، 1948 اور 1973 عرب اسرائیل جنگ میں، امریکی ایرفورس مدد والے اسرائیل سے اپنی شکست تناظر میں،امریکی حربی دباؤ میں، فلسطینی مفاد سے صرف نظر کئے، عرب شاہان، امریکی اشتراک کے ساتھ سائیسنی ترقی یافتہ ملک اسرائیل سے مفاہمت دوستی کرنے نہ صرف مجبور ہونے لگے تھے بلکہ عرب امارات، بحرین، اور سوڈان جیسے اسلامی ملکوں نے،تاسیس اسرائیل پر، پینسٹھ سال بعد،اسکے ناجائز وجود کو تسلیم کرتے ہوئے،اس سےسفارتی تعلقات ودوستی تک کرلی تھی۔

اور عین ممکن تھا امریکی دباؤ میں اسلامی دنیا کی سربراہ مملکت سعودی عربیہ بھی اسرائیل کو تسلیم کئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات دوستی شروع کرنے سے قبل، سابقہ 75 سال سے قوم یہود کا ظلم و انبساط سہنے، برداشت کرنے والی قوم فلسطین، صرف اور صرف اپنی شناخت بقاءاور آپنی آزادی کی جنگ لڑنے،صرف اور صرف اپنے اللہ پر بھروسہ کئے، اپنے میں موجزن جہادی جذبہ کے ساتھ،7 اکتوبر 2023 کو، عالم کی ساتوین سب سے طاقت ورترین فضائی حربی قوت والی جابر و جارح ترین اسرائیلی افواج کے خلاف، جہاد شروع کیا اور پورے سوا سال تقریبا 470 دن بعد اسرائیلی افواج کوشکشت فاش دیتے ہوئے،

چند سرفوشان اسلام فلسطینی حماس جانبازوں کے جہادی جذبات کے سامنے گھٹنے ٹیک، سمجھوتہ کرنے پر اسے نہ صرف مجبور کیا ہے بلکہ 7 اکتوبر 2023 سے پہلے، مشترکہ طور فلسطینی مفاد عامہ نظر انداز کئے، امریکہ و اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے رہے شاہان مملکت عرب کو،فلسطینی مفاد عامہ کے لئے، کھل کر فلسطینیوں کے حق میں کھڑا ہونے کی ساہس و ہمت عطا کی ہے۔ قدرتی پیٹرول دولت سے مالامال عرب ممالک کو اسرائیلی ڈر اور خوف میں مبتلا کئے، اسے پوری شان سے عربوں کے بیچ قائم رکھنے ہی کے لئے، مٹھی بھر فلسطینی حماس مجاہدین سے شکست کھائے ہزہمت زد اسرائیلی افواج کو، ایک نئی طاقت وتوانائی بخشنے ہی کے لئے، وقت کے فرعوں صاحب امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے، عالمی قوانین جمہوریت و انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، جس بے شرمی سے، غدار خلافت عثمانیہ شریف مکہ کے پوتے،

سب سے زیرک اور تجربہ کار شاہ جارڈن کنگ حسین ثانی کو بطور مہمان امریکہ بلاکر،اسکی بے توقیری بے عزتی کرتے ہوئے، اسرائیلی افواج کو شکشت فاش دینے والے 20 لاکھ فلسطینیوں کو ارض فلسطین سے، بے دخل کئے جاتے، انہیں زبردستی جارڈن و مصر میں آباد کرنے کا فرعونی حکم نامہ جوجاری کیا ہے جس پر سعودی وزیر اعظم اور کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی طرف سے صدر امریکہ کے ارض فلسطین سے، فلسطینوں کو بےدخل کئے جانے والے فیصلے کی مخالفت کرنے پر، امریکی صدر کی ایماء و تائید ہی سے، اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو نے، فلسطینیوں کو مملکت سعودی عرب میں لے جا بسانے کا فرمان جو جاری کیا ہے، اس پر، ایک فلسطینی کمسن بچے کے جہادی جذبات سے لبریز کہا یہ جملہ”وقت کے فرعونوں کے جبر کو، نہ صرف ہم نے دیکھا اور سہا ہے،

بلکہ ہمیں ان فرعون صفت وقت کے خود ساختہ خداؤں کے مکر و فن پر، اپنے اللہ کی طرف سے تیار کی ہوئی تدبیر میں، خیر پائے جانے کا مکمل یقین و ایمان ہے”“ومكر الله والله خير الماكرين” سورہ اعراف ایت 182۔مفہوم آیت قرآنی “اور وہ مکر وفریب کرتے ہیں اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے” اس کمسن فلسطینی بچے کا یہ جملہ ان عرب شاہان کے ساتھ ہی ساتھ، آسمانی سناتن دھرمی شدت پسند ھندوؤں کے ظلم و انبساط کےمارے ہم 30 کروڑ ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ، عالم کے مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دئیے جاتے، ہم میں جہادی جذبات عود کر لانے کی سیکھ بہتر انداز دی ہے۔بے شک دنیوی فرعون صفت حکمرانوں کے مکر وفن چالبازیوں پر اللہ رب العزت کی تدبیریں، ہم مسلمانوں کے لئے یقینا” خیر کا باعث بنا کرتی ہیں۔

عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے تمام تر عقلاء و تعلیم یافتگان کی سوچ سے پرے،چندفلسطینی حماس جانبازوں کی طرف سے، وقت کی فرعون صفت نازی اسرائیلی افواج کے خلاف 7 اکتوبر 2023 شرو کی گئی بے دست و پاء یلغار، یہود و ہنود و نصاری اسلام دشمن عالمی حربی گٹھ جوڑ کے سامنے، ان چودہ پندرہ مہینوں میں، عالم انسانیت کے سامنے اپنی حربی قوت و طاقت کا لوہا منواتی،حماس و حزب اللہ ہوتی یمن، نیر ایران وترکیہ افواج کی حربی قوت نے، ہر کسی کو جہاں ششدر و حیرت زدہ کیا ہے وہیں،اسرائیل کو بچانے عالمی قوت صاحب امریکہ کی پینترے بازیوں میں، پڑوسی کینڈا کو زبردستی امریکہ میں الحاق کئے،

اسےاپنی 51 وین ریاست اعلان کرنے، پناما کینل سمیت گرین لینڈ کو بزور قوت ہتھیانے والے فرعونی فیصلوں جیسے،صدر امریکہ ٹرمپ کے کچھ ناعاقبت اندیش فیصلوں نے، عالم کے سامنے اسے رسوا تر کئے، عالمی حربی منظر نامے میں، اسےکمزور تر کئے، اسکے مقابلے والے چین و روس کو کھل کر اپنی حیثیت و رتبہ ظاہر کرنے واشگاف موقع جہاں عنایت کیا ہے۔ وہیں سابقہ سو سالوں سے امریکی اشاروں پر اسکے آگے بچھ جانے والے شاہان عرب کو، امریکہ کے خلاف کھل کر فلسطین کے حق میں کھڑا ہونے کی نہ صرف ہمت بخشی ہے بلکہ، اپنے اپنے ملکی ترقی پزیری کے لئے، امریکی انحصار چھوڑ چین و روس سمیت کوئی بھی دوسرا نعم البدل اپنانے کی راہ سجھائی ہے۔

خصوصا” حالیہ فلسطینی حماس اسرائیلی افواج کھلی جیت باوجود، صاحب امریکہ کے فرعونی طاغوتی فیصلوں نے، سابقہ سوسالہ مختلف تفکراتی حلقہ بندیوں میں الجھی، آپس میں لڑتی جنگ کرتی مختلف الملکی مسلم افواج کو،ایک مضبوط اشتراک میں۔بدلے، پاکستان ایران ترکیہ سعودیہ شام و یمن پر مشتمل ایک اسلامی حربی بلاک بناتے ہوئے، پیشین گوئی خاتم الانبیاء سرور کونین مصطفی محمد رسول اللہ ﷺ کے عین مطابق، آسمانی ایک دن والے فیصلے اور نصف دن کی مہلت کے برابر والے دنیوی دیڑھ ہزار سال، یعنے اسلامی صدی پر دیڑھ ہزار سال گزرنے کے بعد کم و بیش 2080 کے آس پاس، دوبارہ عالم پر اسلامی حکومت قائم ہونے کے آثار، اورآسمانی فیصلے ایک دن برابر دنیوی ایک ہزار سال،اس اعتبار کم و بیش اگلے ایک ہزار 56 سال تک، دنیا قائم رہنے کے اشارے،ابھی سے صاف نظر آنے لگے ہیں واللہ الموافق بالتوفق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں