ملک کے حالات اور اشرافیہ کی تر جیحات !
اُس وقت ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے،یہ سب کچھ نیا نہیں ہے،یہ برس ہا برس سے ہورہا ہے اور ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب ہی چلے جارہے ہیں،ہم سے بعد آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں، ہم آج بھی رگڑے کھا رہے ہیں،ہم آج بھی آئی ایم ایف سے ہی پوچھ کر سانس لے رہے ہیں،
ہم آج بھی اپنے نظام عدل کے بارے اُن کے افسروں کو یقین دِلا رہے ہیں کہ وہ بہت شاندار ہے اور خلق ِ خدا کو انصاف دے رہا ہے، ہم آج بھی اُن کی ہی منتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں پٹرول سستا کرنے دو، بجلی کے نرخ گھٹانے دو، کیونکہ ہمارے عوام مہنگائی،بے روز گاری اور غربت کے ہاتھوں مرر ہے ہیں،آخر اس ملک میں کیا نہیں ہے،جوکہ دوسرے ممالک میں موجود ہے،اس ملک میں سب کچھ ہے،مگر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں ملک و عوام کہیں دکھائی نہیں دیے رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے
تو ہر دور حکو مت میں عوام کو ترقی و خو شحالی کے خواب ہی دکھائے جاتے رہے ہیں اور ہر دور میں ہی سارے سپنے چکنا چور ہوتے رہے ہیں ، اب حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اس ملک کا ہر دوسرا شخص اس مملکت خداداد کو چھوڑ کر یورپ اور امریکا بھاگ جانا چاہتا ہے، اس تڑپ میں وہ غیر قانونی راہیں اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آرہا ہے،اس کی ایسی ہزاروںمثالیں موجود ہیں کہ ہمارے لوگ اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں،
آئے روز خبریں آرہی ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو یورپ لے جاتی کشتیاں یونان یا مراکو کے قریبی ساحلوں میں ڈوب رہی ہیں ، ہمارے اتنے لوگ سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ہیں ،مگر پاکستان کو چھوڑ کر یورپ امریکا بھاگ جانے کی تمنائیں آج بھی اپنے زوروں پر ہیں،اس کو قانون سازی سے روکا جاسکتا ہے نہ ہی سر حدوں پر پہرے بٹھا کر سد باب کیا جاسکتا ہے ،اس کیلئے لوگوں کامعیار زندگی بہتر بنانا ہو گا ، اس ملک میںمعاشی خو ش حالی کادور لانا ہو گا ۔اس کیلئے حکو مت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، لیکن اس حکو مت کے پاس تو ماسوائے زبانی کلامی کے دعوئوں کے کچھ بھی نہیں ہے
، وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال لائے ہیں اور اس پر اُن کے بڑے بھائی اطمنان کا اظہار کرتے ہیں ، جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ایک سال میں پاکستان پر قرضے اور واجبات میں 6 ہزار 106 ارب روپے کا اضافہ، 88 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں ، اس کے باوجود آئی ایم ایف کادر چھوڑا جارہا ہے نہ ہی خود انحصاری کی جانب گامزن ہوا جارہا ہے ، بلکہ قر ض پر قر ض ہی لیا جارہا ہے ، اس کے بعد عوام سے جھوٹ بولا جارہا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال لائے ہیں
،اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کے آثار عام آدمی کی زندگی پر کیوں دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ؟ عام آدمی کیلئے ایک وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے اور ایوان اقتدار کی راہداریوں میں براجمان حکمران طبقہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے سب اچھا ہے کی گردان سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
یہ اپنے آپ کو تجربہ کار کہلانے والی اشرافیہ ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی بجائے ماضی کی طرح اس بار بھی بیرونی دنیا کے سامنے وطن عزیز کی خودی کے بدلے قرض پر قر ض ہی لیے جا رہی ہے ،ملکی حالات اور اقتصادی صورت حال پر گہری نگاہ رکھنے والے غیرجانبداروں کی رائے کے مطابق، اگر ملک کے موجودہ زمینی حالات اور معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ ائیرکنڈیشن دفاتر اور لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر سب اچھا ہونے کا راگ الاپنے والے حکمران طبقے کے دعوؤں کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آرہا ہے
،چونکہ موجودہ حالات میں عام آدمی کیلئے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرناناممکن ہو چکا ہے، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور بے روز گاری نے عام آدمی کی زندگی سے اُمید کا دامن چھین کر اسے خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے، لیکن اس کی حکمرانوں کو پرواہ ہے نہ ہی عوام کی مشکلات کا احساس ہے ، کیو نکہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں ، طاقتور حلقوں کی آشیر باد سے آئے ہیں۔
اس وطن ِ عزیزمیں بہتری کے آثار پیدا کرنے کے لئے حکومت ِ وقت اور مقتدر حلقوں کو حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ نہ صرف دہشت گرد گروہ فتنہ الخوارج کی بزدلانہ کارروائیاں ،بلکہ ابتر معاشی صورتحال، کمر توڑ مہنگائی،بیروزگاری، سیاسی کشیدگی جیسے عوامل بھی ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے زہر قاتل ثابت ہورہے ہیں، لہٰذا ،اس سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے ساتھ دیگر چیلنجزسے نبردآزماء ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بھلاکر اور مقتدراہ کو اپنے رویئے میں تبدیلی لاکر وطن ِ عزیزمیں اخوت و بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، بصورت دیگر ملک چل پائے گا نہ ہی آگے بڑھ پائے گا ۔