30

خامشی کی زباں کون جانے یہاں

خامشی کی زباں کون جانے یہاں

شہزادافق التمیمی

زندگی مسلسل جہدوجہد کا نام ہے۔ حالات کی کشتی میں سوار ہوکر منزل کی جانب روا ں دواں بڑھتے ہوئے دکھ ،سکھ کامیابی و ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے ہمت،جرات سے صبر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے؛اذیتوں کےساتھ مسکراتے ہوئے چلنے کا نام زندگی ہے۔زندگی ایک آئینہ ہے اور ہم اپنے اپنے عکس اس میں تلاش کرتے ہیں۔میرا عکس کبھی فنا تو کبھی بقا کے دائرے میں ہوتا ہے۔اسی کشمکش میں، میں نے کئی منزلیں روندی ہیں

اور کئی منزلیں تراشی ہیں۔میں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی! کیونکہ مجھے میرے سوا کبھی کسی کا بھی سہارا میسر ہی نہ تھا؛یا پھر میں نے کبھی کسی سے توقع ہی وابستہ نہیں کی! کیونکہ قدم قدم پر سمجھوتہ کرنا میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔بڑی منزل کے مسافروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چلتے ہوئے اردگرد دوسروں سے اُمیدیں لگائیں اور اپنے نقوش منہدم ہونے کے لیے چھوڑ دیں۔
زندگی میں جب بھی میں تھک ہار جاتا ہوں

میں پھر خود کو سہارا دیتا ہوں؛ اپنی مدد خود ہی کرتا ہوں؛ میں نے خود ہی اپنی حوصلہ افزائی کی، پھراپنے ہی کندھوں کاسہارالیااور پھر سے چلنا شروع کردیا ۔مجھے زندگی میں ہمیشہ نشیب وفراز کاسامنا رہا مگر میں کبھی مایوس نہیں ہواکیونکہ مایوسی کو ہمیشہ مجھے سے مل کر ہی مایوس ہونا پڑا۔
ناکامیوں نےکئی بارمیرے پاؤں سے چمٹ کرمجھے روکنے کی کوشش کی، مگر ناکامی کو ہمیشہ کی طرح ہربار ناکامی کا ہی سامنا کرناپڑااور شکست سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ میں نےکبھی ناکامی کو اہمیت ہی نہیں دی اس لئے ناکامی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا؛ مگر وقتا فوقتا ہمارا آمنا سامنا ضرور ہوتا ہے بعض اوقات ہم دونوں ساتھ بھی چلتے ہیں مگر جلد ایک دوسرے سے راہیں جدا ہوجاتی ہیں۔
میری خامی یہ ہے کہ میں کبھی وقت کےساتھ نہیں چلا اورخوبی یہ ہے کہ جب بھی مجھے ضرورت پڑی میں وقت کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلا ۔وقت ہمیشہ اُس کے ساتھ چلتا ہے جو مایوسی کو پاؤں تلے روند کر بےغم ہو کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا ہے۔میں نےجب سے خاموشی کو اپنا ساتھی بنا یا، دریا،سورج، پھول ،پرندے، خوشبو،ہوا،آسمان ، ستارے،تاریکی اور سورج کی کرنوں نے مجھے ہمیشہ رستہ دکھلایا ۔
مگر افسوس! مجھے ہجوم میں چلتے ہوئے مایوس ہونا پڑا کیونکہ انسان ملنا بہت مشکل تھا اگر کوئی حادثاتی طور پر ملا بھی سہی تو وہ بھی اس ہجوم سے کنارہ کشی کرنے کی جستجو میں تھا، نجانے کیوں یہ ہجوم کس سمت چل رہا ہے کس منزل کاراہی ہے جو مسلسل بے یقینی کےساتھ چل رہا ہے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح بیت جاتی ہے مگر منزل کا تعین نہیں ہو پایا۔ مجھےحالات نے دوران حصول ِتعلیم (میٹرک) یہ بات سمجھا دی کہ اگر آپ کی منزل ۱۰ میل پر آنی ہے اور آپ ۱۲ میل سفر طے کر چکے

تو راستہ بدلناآپ پر فرض ہوچکا ہے کیونکہ غلط راستہ اختیار ہو چکا ہے ۔ ہم نجانے کتنی دہائیوں سے اپنے وجود کی تلاش میں رستوں کی دھول چاٹتے ہیں اور قدموں کو نہیں روکتے۔ نجانےکیوں ہم سب دوسروں میں انسانیت ڈھونڈتے ہیں جب کہ یہی توقع دوسرے بھی ہم سے کرتے ہیں ؛کیوں نہ ہم اپنے ہی اندر جھانک کر اس حقیقت کو تسلیم کریں اور بناوٹی دنیا ترک کر کے حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
میں نے جب سےخاموشی کو اپناساتھی بنایا گلے شکوؤں نےمجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور مجھے بھی اچھا لگا ۔میں نے خاموشی کو مستقل طور پر اپنا ساتھی بنالیا اور اسی کے ساتھ مجھ پر کئی رازوں نے اپنے نقوش کھُولنے شروع کیے۔ خاموشی اور میرے درمیاں کچھ بھی پوشیدہ نہیں اس لیے میں بہت سکون میں ہوں۔
آپ کے ہاتھوں میں میرا یہ پہلا شعری مجموعہ “آفاقِ اُفق” میری اور خاموشی کے درمیاں ہونے والی گفتگو ہے ۔ جس کو میری قلم نے نہایت ایمانداری سے ورق ورق سجایا اور اِن الفاظ میں چھپی اذیت ،دنیا میں رونما ہونے والے حادثات، انسانیت کی تذلیل سب کے سامنے الفاظ کی شکل میں لانے کی کوشش کی۔ اب میں اپنی خاموشی کو دیکھ رہا ہوں اور میری خاموشی آپ کو دیکھ رہی ہے۔ہمیں مقصدِ حیات سے شناسا ہونے کی ضرورت ہے۔اسی مقصد کے تحت میرے الفاظ کئی جگہوں پر آپ کے ذہن پر دستک دیں گے۔
عہدِ حاضر میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ہم سب کچھ جان کر انجان بن جاتے ہیں؛آخر کیوں ؟
میں ایک مسلمان ہوں اور جہاد مجھ پر فرض ہے میری طاقت میرا قلم ہے اور میں اپنےقلم سے اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔
مجھے علم نہیں کہ میری یہ کتاب آپ کے معیار پر پوار اترے گی یا نہیں ؛آپ اسے کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؛یہ آپ پر منحصر ہے ۔میں نے اسے لکھتے وقت یہ نہیں سوچا کہ آپ کیا سوچیں گے۔
کیونکہ میں جو دیکھتا ہوں؛وہ میں سوچتا ہوں اور جو میں سوچتا ہوں ؛میں وہی لکھتا ہوں ۔ہم سب ایک دوسرے کی راہوں میں کانٹے بچھاتے بچھاتے اس حال تک جا پہنچے ہیں کہ ہم سب کو کانٹوں سے گزرنا پڑ رہاہے۔
میں نے غزلیں، نظمیں، قطعات اور فردیات کا سہارا لیا۔اپنے اندر کی دنیا آپ تک پہنچانے کی کوشش کی۔اپنے جذبات کے رنگوں سے قرطاس سجانے کی کوشش کی۔میرے باطن کا تعلق کبھی رومانیت سے جڑا، کبھی تہذیب سے، کبھی سیاست سے، کبھی مزاحمت سے۔جس جس سے میرا تعلق جڑتا گیا؛ میری شاعر ی نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے تخلیقی سفر تک لے گیا۔
میں نے اپنی کتاب کا مسودہ کئی بڑے شعراء کرام کو بھیجا اور مایوسی کا سامنا کرناپڑا کیونکہ کسی نے میری ذات کو محور بنا کر لکھااور کسی نے پتہ نہیں کس کو ۔کیونکہ کچھ تبصرے تو ایسے تھے جن کا نہ تو اس کتاب سے کوئی تعلق تھا ؛نہ ہی مجھ سے ۔ بعض ناقدین تو ایسے تھے جنہوں نے کتاب پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی اورآنکھیں بند کر کے رسمی کلمات مجھےبھیج دیے۔ادبی دنیا میں اتنا تجربہ تو مجھے بھی ہو گیا ہے

کہ کس قلم کا تعلق کس ذہن سے ہے اور کس ذہن سے تخلیق کار کو کہاں رکھنا ہے۔میں نے نہایت ادب کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا لیکن ان کے تبصروں کو کتاب میں شامل نہیں کیا۔اگر وہ احباب میری خامیاں میرے سامنے لاتے یا تجاویز دیتے تو مجھے اچھا لگتا۔مجھے تو اتنا ہی سمجھ آیا کہ شاید میری کتاب اُن کے تبصروں کے قابل نہیں یا وہ اس قابل نہیں کہ میری کتاب پر کچھ عنایت فرماتے۔
میں ان تمام لوگوں کا دل سے ممنون ہوں کہ جنہوں نے میرے شعری مجموعے کا مطالعہ کیا اور اپنے قیمتی آرا سے نوازا۔ جناب نسیم ِ سحر ، جناب نوید ملک، محترمہ جہاں آراتبسم صاحبہ ،ڈاکٹر تحسین بی بی اور محمد مظہر نیازی صاحب شامل ایسی ادبی شخصیات ہیں جن نے میری خامشی کو سمجھا اور اس سے باتیں بھی کیں۔آپ بھی میری خاموشی پڑھیں اور میرے باطن کا مطالعہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں