ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 25

دین اسلام کی تعلیمات بمقابلہ 20وین صدی کی عالمی جدت پسند جمہوریت

دین اسلام کی تعلیمات بمقابلہ 20وین صدی کی عالمی جدت پسند جمہوریت

نقاش نائطی،
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلویزن دہلی
۔ +966562677707

“1400 سالہ دین اسلام تعلیمات بمقابلہ ہزاروں سالہ یہود و ہنود و نصاری آسمانی مذاہب شدت پسندئ” نیز جدت پسند دنیا کی اعلی اقدار جمہورئیت، ان تفکراتی ٹکراؤ پر نظر رکھنا ہوگی

583 عیسوی کے بعد شروع ہوی خلافت راشدہ خلافت معاویہ خلافت بنو امیہ سے ہوتے ہوئے، 1923 تک چلی آئی خلافت عثمانیہ دوران کم و بیش چودہ سو سالہ خلافت اسلامیہ میں، عالم کی انسانیت نے، اسلامی خلافت والے چودہ سو سالہ دور میں،جو امن و سکون پایا تھا، بیسوین صدی کی ابتداء سکوت خلافت عثمانیہ کے لئے ماحول کو سازگار کرتے، دین اسلام کو بدنام کرتے پس منظر میں،جدت پسند عصری دنیا نے، عوام پر عوامی حکومت والی جمہورہت کے گن گاتے ہوئے، جس نظام جمہورہت کو انسانیت کے لئے روشناس کیا تھا،

اس نام نہاد عوام کی، عوام پر حکومت کے فریب کو، سکوت خلافت عثمانیہ بعد والے سو سالہ دور جمہوریت میں، عالم انسانیت نے بخوبی دیکھا ہے۔ سکوت خلافت عثمانیہ کے وقت،امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی،اٹلی، روس والے یہود و نصاری عالمی سربراہان نے،عالم میں،امن و شانتی والی پرامن فضاء قائم رکھنے کے لئے،اقوام متحدہ، عالمی عدالت، عالمی معشیتی بنک سمیت کئی ایک عالمی ادارے قائم کرتے ہوئے،

امن عامہ عالم، قائم کرنے کی جو کوشش کی تھیں اسکے نتائج مثبت و منفی کتنے عالم انسانیت پر پڑے ہیں اس کا ادراک یقینا” عالم انسانیت کے ارباب عقل و فہم و ادراک کو بجوبی ہوا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے سب سے بڑے نگہبان عالمی معشیتی و حربی قوت صاحب امریکہ نے،کس طرح عالمی اداروں پر، اپنے اثرات کا غلط استعمال کرتے ہوئے، اپنے سب سے بڑے دشمن دین اسلام کے، حربی و معشیتی قوت حاصل کرتے، عراق، لیبیا، شام و افغانستان جیسے مسلم ممالک پر،عالمی قوتوں کے حربی اقدار یلغار سے، پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک مسلمانوں کی شہادت کرتے ہوئے،

اور خلیجی ممالک کے پیٹرو ڈالر لوٹنے کے لئے، انکے درمیان، ایک طاقت ور غنڈے کی شکل اسرائیلی حکومت کو، سازشانہ خلیجی عرب ملکوں کے درمیان بٹھاتے ہوئے، اور اپنے غنڈہ نما اسرائیل کو، تمام تر عالمی وضع قانون امن عامہ، انسانیت و جمہورہت کو، قوم یہود کے لئے مشتشنی قرار دیتے ہوئے، سابقہ پچہتر سالوں میں، ارض فلسطین کے اصل باشندے فلسطینیوں کو، تمام تر حقوق شہریت سے،انہیں حقیقتا” محروم کئے، قوم یہود کے قائم کردہ عالم کے سب بڑی کھلی جیل غازہ میں، انہیں رہنے مجبور کرتے ہوئے، سکوت خلاف عثمانیہ بعد والے اس سو سالہ جمہوری دور میں، جمہورہت کے نام پر، اسلام دشمن مسیحی غنڈہ گردی طرزحکومت کو، عالم انسانیت نے نہ صرف بخوبی دیکھا ہے

بلکہ حالیہ اسرائیل فلسطین حربی جھڑپ تک، تقریبا” نہتے 20 لاکھ فلسطینی شہریوں پر امریکی امدادی بم و میزائل ڈرون فائٹر جیٹ بمباری سے، پچاس ساٹھ ہزار معصوم و محصور فلسطینیوں کی شہادت کو لائیو سائبر میڈیا پر عالم انسانیت نے بخوبی مشاہدہ بھی کیا ہے۔1400 سالہ پرامن اسلامی خلافت بعد،قائم جمہوری نظام والے عالم انسانیت پر، مسیحی حکمرانوں کےظلم عظیم کے سامنے آتے ہوئے، بزور قوت عالم انسانیت پر، امن عامہ قائم کرنے کی جو امریکی و یورپی کوشش کی گئیں تھیں،اور سابقہ 75 سال تک محصور رکھے گئے

فلسطینیوں نے نیوٹن اوصول سائینس “خود کو زندہ رکھنے کی تگ ودو” فائیٹنگ فور سروائیول اوصول کے تحت اپنے زیر زمین تہہ خانوں میں مدافعتی حربی جہد مسلسل سے،جو کچھ بھی بن پایا فلسطینی مجاہدین حماس نے، حرب وجنگ کے اوصول، اٹیک فرسٹ تو ڈیفینڈ ، اپنی مدافعت کے لئے دشمن پر حملہ آوری، اپنی بے سروسامانی باوجود، صرف اور صرف اپنے میں ازل سے موجود جہادی جذبات سے، حملہ میں پہل کے اوصول تحت، عالم حرب کی چوتھی بڑی طاقت اسرائیل پر، 7 اکتوبر 2023 طوفان الاقصی یلغار کرتے ہوئے، اسرائیلی افواج کی طرف سےکھڑی کی گئی تمام تر رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے،

اسرائیلی علاقوں میں گھس کر، جن سو دیڑھ سو یہودی افواج و شہریوں کو اغوا کئے بندھک بنایا تھا، 19 جنوری 2025 جارح اسرائیل کے مائی باپ امریکی حکومتی ذمہ داروں کی سرپرستی میں، طہ پائے حماس یہود جنگ بندی معاہدے کی رو سے ایک یہودی قیدی کے مقابلے، یہودی جیلوں میں بیسیوں سال سے قید و بند رکھے گئے، کم و بیش سو فلسطینی قیدیوں کی رہائی پاتے،لائیو میڈیا پر دکھاتے منظر ناموں میں، عالم انسانیت نے، جن حقائق سے روشناسی حاصل کی ہے، وہ سابقہ سو سالہ اسلام دشمن یہود وہنود و نصاری سازش کنان کے، اب تک اپنے بھونپو میڈیا سے تشہیر کئےگئے

یا اسلام و مسلمانوں کو بدنام کئے گئے نظریات سے، بالکل ہی جدا جدا سے، نہ صرف محسوس ہوئے ہیں بالکہ سائبر میڈیا پر دیکھے بھی گئے ہیں۔خود ساختہ خدا کی برگزیدہ قوم یہود کی جیلوں میں، کئی کئی دہوں تک قید و بند رکھے جوان و تندرست فلسطینیوں کے بیمار و ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوتے لاغر بوڑھے و کمزور جسموں کو، مہذیب ترین اسرائیلی جیلوں سے نکلتے بھی عالم انسانیت نے دیکھا ہے اور صاحب امریکہ کی طرف سے دہشت گرد، ظالم قرار، مقہور و بدنام کئے گئے، حماس کے پاس محصور رکھے،

انکے دشمن یہود کو سوا سالہ زیرزمین بنکروں کی قید تنہائی بعد،انتہائی تندرست چاق چوبند کسرتی بدن، یہودی مرد و نساء قیدیوں کو ہنستے مسکراتے لوٹتے ہوئے بھی، عالم انسانیت نے سائبر میڈیا پر،براہ راست دیکھا ہے۔ خود ساختہ خدا کے برگزیدہ قوم یہود کے اپنے فلسطینی قیدیوں پر سلوک ناروا باوجود، امریکہ کے دہشت گرد قرار حماس کی قید میں یہودی قیدیوں پر کیا گیا حسن سلوک، 14 سو سالہ اسلامی خلافت والے اعلی اقدار انسانیت، بمقابلہ حالیہ سکوت خلافت عثمانیہ بعد والے عوام پر، عوامی جمہوری حکومت والے سو سالہ یہود و ہنود و نصاری اقدار ظلم و بربریت کا بھی موازنہ عالم انسانیت نے بخوبی کیا ہے۔

اور یہ امن عامہ عالم کے بلند و بانگ دعوے والے پس منظر، ظلم و بربریت والے یہود و نصاری، مسلم امہ قتل عام کرتے مناظر پر، اعلی ترین فلسطینی اسلامی اقدار کو عالم انسانیت،نہ صرف یاد رکھے گی، بلکہ انہیں، سسکتی دم توڑتی انسانیت بعد یموت، اخروی ابدی کامیاب زندگی کے حصول کی تڑپ، یقینا” عالم انسانیت کو، فی زمانہ آقتدارمملکت ھند، ہزاروں سالہ سناتن دھرم والے خود ساختہ فاشسٹ ھندو رام راجیہ میں مسلم اقلیت پر ہوتے ظلم و ستم کے ساتھ ہی ساتھ، سابقہ سو سالہ خود ساختہ امن عالم کے دعویدار، مختلف اسمانی مذہبی یہود و نصاری غلبے والے نصف صد پر مشتمل جمہوری دور میں، بزور قوت امن عامہ عالم، قائم کرتے امریکی و یورپی سامراجی کوشش تناظر میں، افغانستان و عراق و لیبیا، شام و لبنان و فلسطین ، اس نصف صد دوران ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے قصور مسلمانوں کے شہید کئے

جاتے، اور بیسیوں ہزار مسلم نساء کی عصمتوں کے تار تار کئے جاتے مناظر خبروں کو عالم انسانیت اپنے ذہن کے دریچوں میں محفوظ رکھے، وقت تنہائی اپنی تابناک اخروی زندگی کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچتے ہوئے اور تدبر وتفکر کرے گی تو یقینا” وہ امن عالم کی دعویداری کے نام سے انسانیت کے قتل کئے جاتے منظر ناموں کے مقابلہ،دہشت گرد قرار دئیے حماس مجاہدین کے اپنے دشمن یہود قیدیوں کے ساتھ برتے حس سلوک کا تقابل کئے، یقینا عالم انسانیت، یہود و ہنود و نصاری آسمانی مذاہب پر لاسٹ ورشن آف آسمانی مذاہب ، خاتم الانبیاء رحمت اللعالمین کے عملی تربیت پائے،دین اسلام کی یقینا” گرویدہ ہوتےہوئے، عالم انسانیت کے ایک بہت بڑے حصہ کے،داخل اسلام ہوتے، عالم انسانئت دیکھے گی اور وہ دن یقینا آنے والے ہیں۔انشاءاللہ

کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ اسلام دشمن یہود و ہنود و نصاری غلبہ والے دور جمہوریت میں، 1400 سالہ اسلامی حکومت، خلافت عثمانیہ کے خلاف یکجٹ ہوئے دشمنان اسلام یہود و نصاری، بعد فتح عالم، امامت عالم کی دعویداری کے لئے،سابقہ سو سال سے آپس میں دست و گریباں روس و امریکہ، انکے ازلی دشمن اسلام کے سربراہ، مملکت سعودی عربیہ کی نیابت میں، اپنے حربی اختلافات دور کئے،اپنی دشمنی بھلائے، مفاہمت و دوستی کرتےپائےجا سکتے ہیں؟ سابقہ سو سالہ حربی و معشیتی شراکت دار یورپ و امریکہ کا ایک دوسرے کے خلاف صف بستہ ہوتے ازلی دشمن روس سے مفاہمت کرتے لمحات کے بارے میں بھی کیا

کسی نے سوچا تھا؟ کچھ انہی پس منظر کے لئے، مالک ارض و سماوات رب دوجہاں نے، اپنے آسمانی کتاب قرآن مجید میں سورہ 182 اپنے بارے میں کیا خوب کہا ہے “اور وہ ہمہ وقت مکر وفن کرتے پائے جاتے ہیں اور جب اللہ تدبیر کرتا ہے تو وہ انسانیت کے لئے بہترین ہوا کرتی ہے” تین چوتھائی عالم پر حکمرانی کرتے خلاف عثمانیہ کو، اپنی مکرر اسلام دشمن سازشوں سے، بیسیوں ٹکڑوں، مملکتوں میں بانٹ کر،انکے اشاروں میں پلنے والے شاہوں کو جو انہوں نے اقتدار دیا ہوا تھا،

انہی کی اولادوں میں سے کیسے، محمد بن سلمان، ایم بی ایس، محمد بن نہیان، رجب طیب اردگان، و ایرانی مذہبی حکمرانوں پر مشتمل کچھ جوان سال تو کچھ زیرگ بزرگ ترین قیادت کی سرپرستی میں، یواے ای، مملکت سعودی عربیہ، مملکت جمہوریہ ترکیہ و پاکستانیہ و ایران و یمن پر مشتمل حیرت انگیز طور پر ناقابل تسخیر حربی و معشیتی مملکتیں منظر عالم پر ظہور پزیر ہوتے، سکوت خلافت عثمانیہ بعد، صرف سو سالہ اقتدار عالم بعد ہی، اسلام دشمن دشمن یہود و نصاری قوتین کیسے آپسی انتشار کاشکار ہوئے، روبہ زوال ہورہی ہیں دیکھا جاسکتاہے۔

ہم نے اپنے متعدد مضامین و مقالوں میں، پندرویں اسلامی صد اختتام تک عالم پر اسلامی حکومت قائم ہونے کی پیشین گوئی رسول محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں لکھا تھا، اب وہ پیشین گوئی رسول ﷺ پوری ہوتے ہمارا ذہن قبول کررہا ہے کہ نہیں؟ یہودی مصنفین کے تفکر کو اپنے مقالوں تقریروں میں پیش کرتے بعض مسلم علماء کرام نے بھی، قرب قیامت کے اثار دکھاتے امام مہدی کے ظہور ہونے کی خبریں تک عام کی تھیں

جبکہ انسانیت کے لئے،لئے جانے والے آسمانی فیصلے،ایک دن اور مہلت والے نصف دن جوکہ دنیوی اعتبار دیڑھ یزار سال برابر ہوتے ہیں،پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ پندروین صدی کے اختتام آس پاس،صائیبین والی اسلامی سلطنت جو قائم ہوگی وہ کم از کم آسمانی ایک دن برابر ایک ہزار دنیوی سال برابریقینا” ہوگی، پھر کیسے پندرویں اسلامی صد سال بعد قائم ہونے والی صائیبین حکومت کے، کم از کم ہزار سال پہلے، قیامت کیسے رونما ہوسکتی ہے؟ اور رہی بات صائیبین قوم کون ہوگی؟ اس پر گو اللہ کے رسولﷺ نےبرملا کچھ نہیں کہا تھا لیکن صائیبین قوم کون، یہ سوال، دو الگ الگ مواقع پر، نزول آیت “یہود و نصاری والصائیبین”، یمنی النسل صحابی رسولﷺ حضرت سعید الخضری رض اور ایرانی النسل حضرت سلمان فارسی رض کے پوچھے گئے سوال پر، ڈھکے چھپے الفاظ ہی میں “منک” کہتے ہوئے،

جو اشارے آپﷺ نے دئیے تھے کیا ہمیں یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہیں، کہ صائیبین قوم یا تو اہل ایران یا اہل یمن میں سے یا دونوں اقوام کی مشترکہ آل جو صرف اور صرف عالم کے ایک ہی خطہ میں پرورش پاریے آل ڈراویڈ (قوم یمن) اور آل آرین (قوم ایران) کے مشترکہ خون سے پرورش پارہے آل ھنود کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ فی زمانہ ھند پر حکومت کررہی ھندو قومیت والی حکومت کے، اپنے ملکی مسلم اقلیت پر کیا جاتا ظلم و ستم، بجھنے سے پہلے لرزتی ٹمٹاتی پھڑکتی لؤ مانند نظر آتے، ایک اور موقع پر آپ ﷺ کے پیشین گوئی کردہ فرمان رسول ﷺ “ہمیں ھند سے آتی خوشبو، غزوہ ھند کی نوید نؤسنا رہی ہے”

کیا یہ درشانے کے لئے کافی نہیں ہے؟ کہ پندرویں صدی اسلامی کے اختتام آس پاس، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک (صہوف اولی یا زبرالاولین والی) سناتن دھرمی (دین وحدانیت والی) رشی منی منو کے ذریعے سے آسمانی سناتن دھرم پانے کا اقرار کرتی منو وادی(حضرت نوح علیہ السلام) کی قوم، جو پانچ ہزار سال قبل ال یمن سے ھندآئی ڈراویڈین قوم اور ڈھائی ہزار سال پہلے ایران سے ھند آئے آرین قوم کی مشترکہ آل، ھندو قوم کی شکل میں، ایک قوم مشرک بن چکی ہے۔ کیا انکے اپنے منوادی سناتن دھرم اور انکے ویدوں میں قرب قیامت ظہور پزیر ہونے کی پیشین گوئی کئے،کلکی اوتار جو محمد رسول اللہ ﷺکی صورت، جنکا نزول 1450 سال قبل ہوچکا ہے

ان تک انہی کے سناتن دھرم کے اشلوک پر مشتمل اقوال آسمانی کتب کو، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں کھول کھول کر، پیش کردینےسے، اسے قبول کرتے اپنے اصلی سناتن دھرم کی طرف لوٹتے، انکے ویدوں میں پیشین گوئی کئے گئے کلکی اوتار کے دین اسلام کی طرف پوری ھندو قوم کے لوٹ آتے، 1446 سال قبل کئے گئے پیشین گوئی رسول محمد مصطفی ﷺ قوم سائیبیں کے (ائیپا سوامی والے) کالےجھنڈے بردار افواج ھند، غزوہ ھند میں حصہ لینے سرزمین شام پہنچتے کیا پائے نہیں جاسکتے ہیں؟

اس پر عربی زبان کے ساتھ علم قرآن، سنسکرت زبان پر دسترس حاصل کئے، علوم وید گرنتھ، بین المذہنی علوم روشنی میں،ہزاروں سالہ ویدک تعلیمات کو قرآن کریم کی روشنی میں پرت درپرت کھول کھول کر، ھندو قوم کے سامنے رکھنے اور انہیں مائل اسلام کرنے کرانے کی کیا ضرورت ہم مسلم امہ کو نہیں ہونی چاہیئے؟ بغیر سمجھے رٹا مار پڑھنے والے ہزاروں حفاظ کرام کی کھیپ تیار کرنے کی جگہ پر، اتنی ہی محنت سے ایک چوتھائی ہی صحیح عربی لغت افہام و تفہیم کے ساتھ حافظ قرآن کی کھیپ تیار کرتے ہوئے،

انہیں عربی زبان کے ساتھ ساتھ سنسکرت زبان پر عبور دلوایا جائے تو یقین مانئیے یہ بین المذہبی عربی سنسکرت زبان کے ماہر حامل قرآن، کیسے ہزاروں سال سے گرداب میں دبے ہزاروں سال قبل والے ویدک اشلوکوں کو، قرآن فرمان تقابل سے، صاف شفاف احکام خداوند کی حیثیت رشی منی منو کے ماننے والے سناتن دھرمیوں کو، وید گرنتھوں ہی میں پیشین گوئی کردہ کلکی اوتار رسول خاتم الانبیاء رحمت اللعالمین محمدﷺ ابن عبداللہ و آمنہ سے روشناس کرواتے، انہیں قبول اسلام طرف مائل کرنے کامیاب ہوتے پائے جاسکتے ہیں۔ وما التوفیق الا باللہ۔
“یہ وہ الفاظ ہیں جو یہودی قیدی الیگزینڈر تروبانوف نے دہشت گرد کہے جانے والے فلسطینی حماس مسلم مجاہدین کی قید میں، انکے ساتھ سلوک احسن دیکھ لکھے ہیں”

“تمہارا احسان میرے دل میں ہمیشہ نقش رہے گا۔ ان 498 دنوں میں جو میں نے تمہارے درمیان گزارے، میں نے حقیقی مردانگی، خالص بہادری، انسانیت اور اعلیٰ اقدار کا مفہوم سیکھا، حالانکہ تم خود ظلم و جارحیت کا شکار تھے۔

تم ہی اصل میں آزاد تھے، جبکہ میں قید میں تھا۔
تم نے میری حفاظت ایسے کی جیسے ایک شفیق باپ اپنے بچوں کی کرتا ہے۔
میری صحت، عزت اور حتیٰ کہ میری ظاہری حالت کا بھی خیال رکھا، اور مجھے بھوک یا ذلت کا احساس تک نہ ہونے دیا— حالانکہ میں ان مجاہدوں کی قید میں تھا جو اپنی زمین اور چھینے گئے حق کے لیے لڑ رہے تھے، اور جن کے خلاف میری حکومت ایک محصور قوم کے خلاف بدترین نسل کشی کر رہی ہے۔

میں نے کبھی مردانگی کا اصل مطلب نہ جانا تھا، جب تک کہ میں نے وہ تمہاری آنکھوں میں نہ دیکھی۔
قربانی کی قدر کا بھی علم نہ تھا، جب تک میں نے اسے تمہارے درمیان محسوس نہ کیا۔
تم موت کو مسکراہٹ سے خوش آمدید کہتے ہو، اور اپنی نہتی جانوں سے اس دشمن کا مقابلہ کرتے ہو جو قتل و تباہی کے تمام ہتھیار رکھتا ہے۔

میری ساری فصاحت و بلاغت بھی تمہاری بلند اخلاقی عظمت کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔

کیا تمہارا دین تمہیں اسی طرح قیدیوں سے سلوک سکھاتا ہے؟
یہ کیسا عظیم دین ہے جو تمہیں ایسے مردانِ حر بناتا ہے کہ اس کے سامنے تمام انسانی حقوق کے قوانین ہیچ لگتے ہیں، اور دشمنوں کے ساتھ برتاؤ کے تمام عالمی پروٹوکول بے معنی ہو جاتے ہیں؟

تم نے انصاف اور رحم کو محض نعرے کے طور پر نہیں، بلکہ حقیقت میں عمل کر کے دکھایا۔ یقینا ہم جمہوریت کے کھوکھلے دعویدار،آپ کے اپنے ازلی دشمن یہودی مرد و نساء قیدیوں کے ساتھ، کئے حسن سلوک سے، تمہارے دین اسلام کے اعلی اقدار کو سمجھنے لگے ہیں۔ کل تک کتابون میں پڑھے دین اسلام کے اعلی اقدار و افکار کو ہم لائق عمل نہیں مانتے تھے آج آپ ہی کی قید میں،آپ کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے،

آپ کے عملا” کردکھائے اخلاق حمیدہ سے،ان گنت کتابوں میں لکھے دین اسلام سلف و صالحین کے اخلاق و کردار کو لائق عمل تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم بھی اپ ہی کی طرح حضرت سلیمان ، حضرت داؤد و حضرت موسی سمیت انیک انبیاء بنی اسرائیل کے دین آسمانی کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں بھی آپ ہی کی طرح بعد الموت روز محشر اور جنت و دوزخ والی تاابد اخروی زندگی پر ایمان کامل ہے اور مجھ سمیت کم و بیش ایک کروڑ یہودی بھی بعد الموت جنت کے متمنی ہیں۔ ہم اپنے دین یہود کو جو صحیح مان کر عمل پیرا ، ہم جو پائے جاتے ہیں

ہم نے اپنی قوم کے سیاست دانون کو آپ پر ظلم کرتے جو دیکھا ہے ہم تمہیں ضالین میں سے سمجھتے ہوئے،تم کئےجانے والے ظلم و ستم کو، حق بجانب سمجھتے تھے۔ اب تمہاری قید میں رہتے ہوئے،تمہارے عملی اخلاق حمیدہ نے ہمیں انکھین کھول تمہارے دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق ہمیں بخشی ہے اور یقینا” آنے والے دنوں میں ہماری آل تمہارے اخلاق حسنہ کی گرویدہ ہوتے ہوئے مائل اسلام بھی ہونگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں