استقبال رمضان ہونا چاہئیے
۔ نقاش نائطی
نایب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707
آج سنیچر یا کل اتوار ایک آدھ دن میں پوری امت مسلمہ عالم، ایک عظیم مہینہ کو، اپنے درمیان،مہمان مہینہ کے طور پائیں گے، چاہئیے تو یہ تھا کہ پورے عالم کی مسلم امہ، مبارک ترین مہینے کا استقبال اور وداع رمضان بعد، انعام و اکرام والے یوم عید الفطر کو بھی، پوری امت مسلمہ ایک ہی دن مناتے پائے جاتے۔ آج سے چودہ سو سال قبل طلوع آفتاب اسلام مملکت مدینہ منورہ، خلاف راشدہ سے شروع ہوتے ہوئے،
پورے عالم انسانیت کے تین چوتھائی حصہ ارض پر اپنی خلافت پھیلاتے ہوئے، خلافت راشدہ سے خلافت بنوامیہ،بنو فاطمیہ سے ہوتے ہوتے ابھی ایک سو دو سال قبل 1923 سقوط خلافت عثمانیہ تک، پورے عالم کی مسلم امہ، ایک ساتھ ایک ہی دن، نہ صرف ماہ رمضان کو، اپنے درمیان خوش آمدید کہتی پائی جاتی تھیں، بالکہ وداع رمضان والی عیدالفطر کے ساتھ یوم عیدالاضحی کے ساتھ ہی ساتھ شب قدر، شب معراج نیز انیک متبرک شب و دن ایک ہی روزمناتے، پورےعالم کے مسلمان شادمان نظر آتے تھے۔
یہ اسلام دشمن یہود و نصاری سازش کنان کے مکرو فن نے،ایک خلافت عثمانیہ کو، پچاس کے قریب ٹکڑوں مملکتوں میں نہ صرف بانٹا بالکہ ہم مسلمانوں کے قلوب کو بھی، مختلف اقسام نظریاتی، مسلکی گروہ بندیوں میں بانٹے ہوئے، ایک دوسرے سے جدا جدا اپنی عیدی منانے پر مجبور کردیا ہے، کہ آج دو تین مختلف دنوں میں مسلم امہ،عید کے لمحات منائے پائے جاتے ہیں۔اسلامی مہینے کی شروعات دینی اقدار اعتبار، دید قمر پر چونکہ منحصر ہے لیکن اجتہاد مسلم امہ سے،اس مسئلہ کا حل بھی ناممکن نہیں ہے۔
چونکہ سقوط خلافت عثمانیہ بعد مختلف وقوع پزیر اسلامی و غیر اسلامی حکومتیں بھی، اسلام دشمن برطانوی، اطالوی فرنسی المانی و امریکی زمام حکومت اثر تلے تھیں اسلئے، ایرانی شیعی رافضی اثر ورسوخ والے مغل حکمران جلال الدین اکبر دین الہی کی تائید والے،علماء وزعماء طرز پر، ان یہو ونصاری حکومتوں کے من و سلوی افادیات سے فیوض و برکات پانے والے قائدیں، مسلم امہ علماء و زعماء نے، اپنے وقتی آقاؤں کی مرضی مطابق، مسلم امہ کے درمیان مسلکی و فقہی اختلافات کی دراڑ کو گہری کئے، مسلم امہ کو مختلف فرقوں میں مستقل بانٹے ہی رکھا تھا
الحمدللہ 24 ستمبر 1985 کو وزارت الحج و اوقاف مملکت سعودی عربیہ کی ماتحتی میں، 15 عرب مملکتوں کے سرابراہان جمع ہوئے اور اسوئے رسول صلہ اللہ علیہ وسلم، فقط دو مسلمین کی گواہی روئیت ھلال والے اسلوب پر، رمضان و عید کا اعلان کرنے کروانے کی روایات کے پیش نظر، روئیت ھلال تقویم کا نظام نافض العمل کردیا تھا، جس پر علماء مقلدیں کس طرح اپنی سازشانہ ذہنیت سے، انہیں بدنام کررہے ہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
جب کہ چاہئیے تو یہ تھا عرب حکومتوں کے اجماعی فیصلے کے طرز پر ھند و پاک بنگلہ دیش کے علماء کرام و مجتہدین اسلام بھی، ہمارے علاقوں کے لئے،اتباع عرب ممالک عمل آوری سے،اپنےعلاقوں میں، اسلامی تقویم کی شروعات کئےجاتے، یہ اس لئے کہ ہزار مہینوں پر بھاری شب قدر، رمضان المبارک کی طاق راتوں میں، تلاش کرنے کا حکم جو اسلام میں پایا جاتا ہے وہ عرب علاقوں کی طاق راتیں، ہم ھند و پاک مسلمانوں کے علاقوں کی جفت راتیں ہوجاتی ہے اور اپنے علاقوں کی طاق راتوں کی عبادتیں، عرب علاقے، حرمین شریفین کے ساتھ، میدان مینا و عرفات میں، جفت راتیں ہوتے ہوئے،
ہماری طاق راتوں کی عبادات کو بے وقعت چھوڑ جاتی ہیں۔ اسلئے اگر اجماع علماء دین فیصلے کے تحت،پوری امت مسلمہ یا کم از کم، ہم مشرقی دنیا کے مسلمانوں کے رمضان و عید کی تاریخ میں یکسانیت پائی جاسکتی ہیں۔ اور کفار و مشرکیں کے مذہبی تقویم کےسامنے ہمارے اسلامی تقویم مختلف ملکی تفاوت سے مختلف دنوں میں منائے جاتے، عیدین سے ہوتی امت مسلمہ خفت سے بھی، ہمیں آسانی سے ماورائیت مل سکتی ہے۔ کاش کے مستقبل کے دنوں میں، اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے۔
علاوہ ازین زمانہ قدیم سے، ہم مسلم گھرانوں میں، استقبال رمضان، جو کئے جاتے، ہم پاتے تھے وہ اپنے تجارتی میزانئے، بیلنس شیٹ کے اعتبار سے، سالانہ آمدن کی مقدار جانتے ہوئے، اس حساب سے زکاة نکالی جاتے اور رمضان المبارک کے لمحات تبریک میں، اسے توزیع کئے جاتے، متعدد یا ملٹیپل ثواب حاصل کیا جاتا رہا ہے، اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی رنگ و روغن کئے جاتے، گھروں میں موجود فاضل کثرت اشیاء خیرات میں دی جاسکے اور اپنے گھروں کی تزئین نؤ سے، رمضان المبارک شروعات کی جاسکے اس کا بھی خیال رکھا جاتا رہا تھا۔ آج بھی مملکت سعودی عربیہ و دیگر عرب ملکوں کے عرب اقدار کو، ہم دیکھتے ہیں
تو، یہ عرب لوگ، رمضان سے قبل،اپنے گھروں کے پرانے بوسیدہ فرنیچر کو، اونے پونے داموں میں بیجے یا جالیات جیسے خیراتی اداروں(کپڑابینک) کی معرفت، مستحقین تک پہنچاتے ہوئے، نئے فرنیچر اور گھر کی نئی تزئین نؤ سے، رمضان المبارک کی شروعات کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہی کچھ اس دھرتی پر سابقہ چار پانچ ہزار سال سے آباد، مغربی یورپ و امریکہ کے یہود و نصاری مسیحئین، یوم تثلیث حضرت عیسی علیہ السلام پر ہفتہ گزرنے کے بعد، یکم دسمبر سے، بڑے ہی دھوم دھڑاکے، تحفہ تحایف کے ساتھ، اپنے سال نؤکی ابتدا کرتے پائے جاتے ہیں تو، مشرکین ھند سندھی و گجراتی بنئے، سال نؤ دیپاولی سے، یا بیسیوں ہزار سال قبل سے، ھند کی دھرتی پر آباد، قوم آل آدم و نوح علیہ السلام،جنوب ھند میں، ہزاروں سال سے رہتے آئے
ڈراویڈ قوم کے باشندگان ٹمل ناڈ، کیرالہ، آندھرا کرناٹک و کچھ مراٹھا علاقوں کے مشرک واسی،اپنے مذہبی سال نؤ، پونگل کے موقع پر، اپنے اپنے گھروں اور جائے تجارت کی تزئین نؤ نیز ھدیہ جات دئیے، سال نؤ کی شروعات کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور آسمانی مذاہب تسلسل کے آخر میں آئے خاتم النبیاء سید المرسلیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی امت مسلمہ جوعالم۔انسانیت کی سب سے جدید تر آسمانی مذہبی قوم ہے، ابھی ہم پر دین اسلام کو آئے چودہ سو سال بھی نہیں گزرے ہیں، ہم نے اپنے اسلامی تشخص، اسلامی سال نؤ سے،اپنے معشیتی سفرکی شروعات کرنے کے بجائے، مسیحین کے طرز عیسائی تقویم یا حکومتی سال نو معشیتی تقویم سے، اپنی تجارت کرتے پائےجارہے ہیں۔ کاش کہ ہم مسلمانان عالم بھی، اپنے ھجری سال نؤ یا متبرک ترین شہر رمضان کریم سے، اپنے سال نؤ مناتے پائے جائیں۔
یقینا” ماہ مبارک رمضان کریم کا استقبال،اسوئے سلف و صالحین،جس چاہ و محبت سے ہمیں کرنا چاہئیے فی زمانہ جدت پسندانہ اقدار رمضان المبارک کو ایثار و قربانی، ترک کثرت اشیآئے خوردنی، ماہ صوم کو کثرت تناول رزق، رزاق دو جہاں سمجھے، فقط نت نئے متونوع اقسام کھانے پکانے اور کھانے ہی کے لئے رمضان کا نزول ہوا سمجھ رہے لگتے ہیں۔ اسی لئے قوم مسلم فی زمانہ ماہ رمضان میں، ہر سو شہر کے نکڑ نکڑ پر، متونوع اقسام کے کھانے بازار، سر شام لگاتے، بوقت افطار کثرت طعام سے نڈھال آرام کررہے، پائے جارہے ہیں۔ اسی لئے تو اطباء عالم اجماع، صیام سے وزن گھٹتے انسانی بدن سڈول و متوازن ہوتے پائے جاتے اوصول کے خلاف، ماہ صیام میں،اپنے کثرت طعام نظریہ سے، ہم مسلمین کے وزن کو بڑھا ہوا ہم پاتے ہیں۔ آخر کیوں ہم مسلمانان عالم میں، یہ تفکر کا فرق زور پکڑنے لگا ہے
کہ استقبال رمضان کثرت عبادات قرب الہی کا ہونے کے بجائے، کثرت طعام فضول خرچی کا مہینہ ماہ صیام ہوگیا ہے۔ اس پر ستم کہ آخری عشرہ طاق و جفت راتوں میں مشغول عبادات رہتے، قرب الہی کے متلاشی ہم مسلمان، مسجد و مصلے سے دور، آماجگاہ شیطان رجیم،بازاروں میں،رمضان بازار کے نام سے، تسویقی سرگرمیاں سجائے، ہجوم میں، تبریک وقت رمضان، توضیع وقت شب کئے، ہم وقت نؤ مسلم امہ، اصل مقصد رمضان کا منھ چڑا رہے ہوتے، شیطان رجیم کو قید خداوندی میں ہوتے ہوئے بھی، اپنے عمل سے، اسے شادمان کئے جارہے ہیں۔ ماہ صیام روزے رکھے، گھر کے جمیع افراد کے لئے، کھان پان تیار کرنے والی متوقع تکلیف سے نساء کو آمان دیئے، انہیں اپنے اوقات شب رمضان، عبادات کے لئے وقف کرنے موقع فراہم کرنے کےبجائے، اوپر سے روزے کی حالت میں، نت نئے پکوان کے لئے، انہیں مصروف تر رکھے، اصل وقت عبادت شب کے اوقات، تکھے ماندے انہیں حوالہ بستر کرنے کے ہم موجب بن رہے ہیں۔ “تحفہ تحایف دیا کرو اور لیا کرو اس سے آپسی محبت الفت بڑھاکرتی ہے”
اس مفہوم حدیث کے عین خلاف، رمضان میں قریبی رشتہ داروں کے یہاں،بنے بنائے، افطار کھان پان ھدیہ والی وہ پرانی اسلامی روایت، اس جدت پسند دور کے، دن دوگنی ترقی پزیر ہوٹل تجارت نے، رمضان فطور ھدیہ کھان پان کٹ،حسب طلب تیار کر، ترسیل کئے جاتے اعلانات تشہیر نے، جہاں صاحب حیثیت تونگروں کے لئے تو، آسانیان پیدا کی ہوئی ہیں، وہیں، ہوٹل سے بنوا،ھدیہ میں بھیجے جانے والےافطار کھان پان ھدیہ جات کٹ، متوسط عزت دار گھرانوں کے لئے، وبال جان بن چکے ہیں۔ کسی نزدیک و دور کے رشتہ دار سے ہوٹلوں سے تیار ہو آئے
کھان پان افطار ھدیہ جات کٹ، اوصول کر کھانے کے بعد، بواپسی اسی اقدار کے کم و بیش کھان پان افطار ھدیہ تیار کر یا کروا بھیجنے والے اخراجات، انکے رمضان اخراجات، میزانئے کو گڑابڑا کر رکھ دینے کافی ہورہے ہیں۔ ہر معاشرے میں کچھ روایات زمانے سے چلی آرہی ہوتی ہیں۔ لوگ ان رسوم و رواج سے جان چھڑانے کے چکر میں، معاشرے میں عود کر آتے، نئے رسم رواج، جہاں تونگران معاشرہ کے لئے تفریح طبع سامانی کا سبب بنتے ہیں تو وہیں، وہی نئے رسم رواج متوسط عزت دار گھرانوں کی جان جوکھم میں ڈالنے کا سبب ضرور بنتے ہیں۔
استقبال رمضان کی اہمیت جو مومنین کے قلوب کی ٹھنڈک ہےاور انکے روح و بدن کا انگ انگ اس مبارک ماہ کو اپنے درمیاں استقبال کرنے بے چین پائے جاتے ہیں اور عام مسلمان بھی اس مہینے، ان سے انجام پانے والے نیک اعمال بدولت اپنے آپ کو مسلمین کے زمرے سے مومنین میں سے ہونے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور بےشک ہم مومن و مسلماں جو اپنے درمیان اس مبارک مہینہ کو استقبال کرتے ہوئے،
ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے پائے جاتے ہیں ، اور ہم تمام مسلمانوں کو یقین و امید ہے کہ اس مہمان مہینہ میں، بھلائی اور برکت حاصل کی جائے گی۔ یہ رمضان کا مبارک مہینہ زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال ادا کرتے ہوئے اپنے قادر مطلق رب دو جہاں کی خوشنودی، ہم میں سے، ہر کسی کو جو مطلوب ہے اور اس مالک دوجہاں کی رضا و خوشنودی یا تو حقوق اللہ کے زیادہ سے زیادہ کثرت سے کئےجاتے حاصل کی جاسکتی ہے اور آللہ کی مخلوق ہم انسانوں کی اور خاص کر ہم مسلمین میں سے مستحقیق زکاة کی، دامے درمے سخنے مدد و نصرت کئے، اور روزانہ کی بنیاد پر، محنت و مشقت کئے، رزق حاصل کرنے والے مزدور پیشہ مسلمین مرد و نساء کو، حالت روزہ، حصول رزق،محنت و مشقت سے، انکو ماورا و مستشناءکئے،ان تک رزق پہنچائے،ایک اعتبار انہیں کم از کم اس مبارک مہینہ رمضان میں،
حصول رزق کی مشقت سے آزادی دلوائے، انہیں زیادہ سے زیادہ وقت رمضان، اپنے رب دوجہاں کی عبادت کئے اس کی رضا حاصل کرنے والوں میں سے انہیں بننے کا موقع فراہم کئے، وہ خود اپنے رب کی رضا حاصل کررہے ہوتے ہیں یہ وہ مبارک نعمتوں کا مہینہ، اطاعت اور رشتہ داری کا مہینہ، روزہ کے حالت میں تلاوت قرآن پڑھنے، اور روز قیامت و محشر کی یاد کئے،سال بھر، جانے انجانے میں سرزد ہوئے گناہ صغیرہ و کبیرہ سے، معافی تلافی کرنے، اپنے رب دوجہاں کے حضور ، اپنی بے کسی بے بسی کاروناروتے،التجاکرتے ہوئے، اس مبارک مہینے میں، زیادہ سے زیادہ سخاوت کرتے ہوئے،
شب کی تنہاہیوں میں اللہ رب العزت کی کثرت سے حمد و ثناء کرتے ہوئے، اس ایک مبارک مہینے کی بابرکت ساعات میں، اپنے توبہ و اسٹغفار سے سال بھر کی معصیت و گناہوں سے اپنے آپ کو پاک و صاف کرتے ہوئے، اوراس مبارک مہینے کی برکات کو سمیٹتے ہوئے، اس مبارک مہینے کو دیگر گیارہ مہینوں پر ممتاز ہونے کو اپنے طور ثابت کرتے ہوئے، اس مبارک مہینے میں خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کی مانگی
ہوئی دعاؤں میں، اپنے لئے بھی خیر مانگتے ہوئے،رب ذوالجلال وحدہ لاشریک لہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ہر مومن مسلمان متلاشی پایا جاتا ہے۔ ایک موقع پر خطبہ کے لئے ممبر مبارک پر قدم رنجہ فرماتے ہوئے، ہر اٹھتے قدم پر، آپ ﷺنے جب آمین کہا تو بعد کے لمحات میں صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے پوچھنے پر،آپ ﷺ نےجو وجہ بتائی تھی اس میں تینوں وجہ یا بد دعاء حضرت جبریل علیہ السلام، فی زمانہ ہم 90 فیصد عام مسلمین کے لئے کہی یا کی گئی گویا لگتی ہے۔اللہ ہی سے دعا ہے
کہ مملکت سعودی عربیہ میں آج کچھ گھنٹہ قبل شروع ہوئے ساعات رمضان کریم کی خیر و برکات سے، ہم جمیع مسلمانوں کو، فیض یاب ہوتے ہوئے، سال بھر کے ہم سے نادانی میں سرزد ہوئے گناہ کبیرہ صغیرہ و انجانے میں سرزد ہوئی معصیتوں کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف کردے اور اپنے وقت متعین خاتمہ بالخیر ہوتے، سرخرو کے ساتھ، اسکے حضور حاضر ہونا ہماری قسمت میں لکھ دے۔ وما التوفیق الا باللہ
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ
ایک روز رسول ﷺ منبر لانے کا حکم دیا،
جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین !
پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھاتو فرمایا : آمین ! پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین !
خطبہ سے فارغ ہونے کے
بعدجب آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، آج آپ ﷺسے ایسی بات سنی جو اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا
“جس نے رمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنے
گناہ نہ بخشوا سکا تو وہ دوزخ میں داخل ہو اور الله کی رحمت سے دور ہو تب جبریل آمین نے کہا کہ آپﷺ اس پر آمین کہئے سو میں نے کہا آمین۔”
“پھر جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو
جبریل علیہ السلام نے کہا :- جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا دونوں میں
سے ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرے تو وہ بھی دوزخ میں داخل ہو اور الله کی رحمت سے دور ہو،
آپ اس پر بھی آمین کہئے۔ میں نے کہا آمین”
“پھر جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا
تو جبریل علیہ السلام نے کہا :- جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ بھیجے تو وہ دوزخ میں داخل ہو اور الله کی رحمت سے دور ہو،
آپ اس پر بھی آمین کہئے۔ میں نے کہا آمین
صحيح ابن حبان ٩١٥ – حسن
صحیح الترغیب ١٦٧٩ – صحیح
شعب الإيمان للبيهقي ٣٣٤٣ حسن
روئیت دید ھلال، اتفاقی فیصلہ کے خلاف رائے عامہ کیسے ہموار کی جاتی ہے
عرب مسلم حکومتوں کے اپسی اختلافات بالائے طاق رکھے، کم از کم پورے عرب خطے میں، اتفاق ویگانگت خاطر مملکت سعودی عرب علماء کرام سرپرستی میں، روئیت ھلال قمر خاطر طے پائے اجماع علماء سلف و صالحین کے خلاف، جمہوری اقدار والے مسیحی مملکتوں میں، مصروف خدمت اسلام، مقلد علماء کو لب کشائی کرتے،دیکھا جاسکتا ہے۔ابن بھٹکلی