زکاة سے غرباء کی امداد ہی نہیں، غربت سے نجات بھی مطلوب ہے
نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707
اگر کسی تونگر رئیس کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ اس کا کوئی نوکر، دل سے اس کا کوئی کام نہیں کرتا بلکہ صرف مہینے کے آخر ملنے والی تنخواہ کے لئے وقت گزاری کیا کرتا ہے سیٹھ لوگوں کے سامنے تو تندہی سے کام کرتا ہے، لیکن ان کی غیرموجودگی میں ڈیوٹی پر وقت گزاری کرتے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو، اپنے سیٹھ کی خدمت پر لگانے کے بجائے،صرف ڈیوٹی نبھانے کی حد تک لیپا پوتی کرتا پایا جاتا ہے
توکوئی سیٹھ ساہوکار، ایسے ملازم کو، اس کی حقیقت کے ادراک باوجود، اس کے ناز نخرے برداشت کرتے ہوئے، اسکو سر آنکھوں پر بٹھائےکیا رکھے گا؟ یا پہلی فرصت دوسرا کوئی اچھا ملازم ملتے ہی، اسے نوکری سے نکال دے گا؟اللہ نے ہمیں ہماری صلاحیتوں کے فقدان باوجود، جو مال دولت و ثروت ہمیں عطا کی ہے اور اس میں سے ڈھائی فیصد کم از کم زکاۃ کی ادائیگی، جہاں فرض کی گئی ہے، وہیں
زکاۃ ادا نہ کرنے پر، مختلف وعیدوں سے ہمیں عذاب قبر و محشر سے جہاں ڈرایا گیا ہے، وہیں نصاب زکاۃ سے زیادہ صدقات دینے پر اللہ کی طرف سے انعامات اکرامات کی بارش کے طور پر، بعد محشر اعلی و ارفع جنت دئیے جانے کے وعدے بھی سنائے گئے ہیں اور زکاۃ و صدقات صحیح مستحقین تک پہنچانے پر ہمارے نکالے گئے صدقات و زکاۃ کو کئی گنا زیادہ بڑھا چڑھاکر ہمیں آخرت میں انعام و اکرام ملنے کے حسین وعدے بھی گئے ہیں۔
ایسے میں ہم مسلمان تونگر و روساء پہلے تو کہاں، اپنے مال و زر سے پورا پورا حساب جوڑ زکاۃ و صدقات نکالتے ہیں اور جو بھی نکالتے ہیں وہ معاشرے میں اپنی تونگری کا دھاک بٹانے کیلئے، معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کو خوش کرنے، مدارس و مساجدکو بڑی بڑی رقوم دیتے ہوئے، ایک طرف معاشرے کے اداروں کے عہدے ہتھیاتے پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف، ان کے آگے پیچھے گھومنے والے،بے ضرورت پشتینی فقراء کی جھولی میں بھیک ڈال اور معاشرے میں، اپنے نام نمود کے لئے، فقراء کی بھیڑ اپنے بنگلے کے سامنے جمع رکھوائے، زکاۃ و صدقات کی تقسیم کرتے ہوئے،
ایک طرف پشتینی فقراء کی ہمت افزائی کرتے ہوئے، ھندو سنگھی، لولے لنگڑے، بہروپیےفقراء کے ہاتھوں، جھولیوں میں اپنی زکاة ڈالے، اپنی زکاة ادا ہوئی سمجھنے والے،اور ساتھ ہی ساتھ ہم مسلمانوں کی زکاة اینٹھنے لوٹنے والے اور منظم انداز غیر مسلم بہروپئیے فقراءکی ہمت افزائی کئے، معاشرے میں فقراء کی تعداد بڑھاتے پائے جاتے ہیں، تو وہیں پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر صحیح معنوں عزت دار مستحقین زکاۃو صدقات تک اپنی زکاۃ و صدقات نہ پہنچاتے ہوئے، ان صحیح معنوں مستحقین کو، ظالم معاشرے کے ہاتھوں استحصال کرنے، انہیں چھوڑ رہے ہوتے ہیں ایسے میں اسلامی معاشرے میں زکاۃ و صدقات منظم جمع کرتے ہوئے،
ضرورت مندوں تک اسے پہنچانے کیلئے، جب تک مسلم معاشرے میں بیت المال نظام قائم نہیں ہوتا ہے اس وقت تک، بیت المال نظام کی تشبیہ ہی کے طور، مخلص علماء و زعماء کی طرف سے معاشرے کے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کیلئے قائم، مختلف ادارے، سو سال سے قائم، مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل، یا جماعت المسلمین کے بیت المال نظام، یا مختلف علماء و زعماء حضرات کی طرف سے قائم کردہ روٹی بینک یا کپڑا بنک یا قوم کی بچیوں کی مالی امداد کر، انہیں وقت پر رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے والے کوئی بھی مخلص ادارے میں، اپنی زکاۃ و صدقات جمع کرتے ہوئے، ایک طرف جہاں وہ عنداللہ ماجور و سرخ رو ہوسکتے ہیں وہیں
پر، انکے زکاۃ و صدقات، وقت پر، ادائیگی ہی کیلئے، غیر ضرورت مند فقراء کی جھولی میں کثیر رقوم ڈالتے ہوئے، مسلم معاشرے میں ہم دانستہ کہ غیر دانستہ فقراء کی افزودگی کرنے سے بھی بچ رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی بارگاہ میں، جب ایک صحابی رسول ﷺ آکر اپنی کم مائیگی کا اظہار کئے، بھیک ہی کی شکل جب کچھ مدد طلب کی تھی تو، آپ ﷺ، کسی بھی صحابی رسول ﷺ کو حکم دئیے،
اس کی اعانت کرسکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے، اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس ضرورت کے سامان کے علاوہ کچھ اضافی چیز بھی ہے؟ اس نے کہا، ہاں ایک پیالہ یا لوٹا ہے آپ ﷺ نے کہا اسے لے آؤ۔ جب وہ صحابی گھر میں موجود ایک پیالہ لے آئے تو، آپ ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کیا کوئی اسے خریدے گا؟ ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اسے میں ایک دینار میں خریدونگا۔ اس پر آپﷺ نے پھر پوچھا کوئی اور اسے زیادہ قیمت میں خریدے گا؟ اس وقت دوسرے صحابی رسول ﷺ نے کہا ہاں میں اسے دو دینار میں خریدنے کے لئے تیار ہوں۔ اس پر آپ ﷺ نے وہ مستعمل پیالہ دو درھم میں اس صحابی کو دے دیا
اور دو درھم اس سائل صحابی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا،ایک درھم سے کچھ کھانا گھر لے جاؤ،اور ایک درھم سے کلہاڑی لے آؤ. اور جب وہ سائل ایک کلہاڑی لے آیا تو آپ ﷺ نے، اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں دستہ یا ڈنڈا پھنسایا اور اسے دیتے ہوئے کہا کہ پاس کے جنگل میں جاؤ اور لکڑیاں کاٹ لاؤ اور مدینہ کے بازار میں بیچ، اپنے بچوں کی پرورش حلال طریقے سے کرنا شرع کرو۔ اورطتاریخ میں لکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے وہ سائل کچھ ہی وقگہ بعد مدیمہ کے بازار میں چولہے میں جلائی جسنے والی لکڑیوں کا تاجر بن چکا تھا۔ اسکا مطلب کیا ہے؟ کہ ہمیں ضرورت مندوں کی جھولی میں بھیک ڈالتے ہوئے،
انہیں صدا کا بھکاری بنانا ہے؟ یا انہیں کسی مناسب روزگار پر لگا، انہیں خود کمائی کر، عزت و وقار والی زندگی جینے کا ہنر سکھانا ہے؟ معاشرے میں محنت مزدوری کر، حلال رزق کماتے چھوٹےتاجر، ٹھیلے والوں سے، اپنا سودا سلف خریدتے ہوئے، انکی معشیت کو سہارا دینے کا کام کرانا ہے اور گھر میں بیٹھی عزت دار ماں بہنوں کے، محنت مزدوری سے بنائے، پکوان خریدتے ہوئے، انہیں معشیتی استحکامیت بہم پہنچانی ہے ۔ پڑوسی ملک بنگلہ دئش کے اپنے وقت کے رئیس اور سوشل ورکر، محمد یونس نے، اپنے قائم کردہ بینک سے، مائیکرو فائینانسنگ اسکیم” کا اجراء کرتے ہوئے، مفلوک الحال غریب سے غریب عام مزدور پیشہ لوگوں تک، ان میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، یا ابھارتے ہوئے،
ان کی ضرورت مطابق کم مقداری قرض، وہ بھی نہایت آسان واپسی اقساط شرائط پر، انہیں قرض دلواتے ہوئے،بنگلہ دیش کی بھیک مانگتی غریب عوام کو روزگار پر لگا، آپنے وقت کے غریب تر ملک بنگلہ دیش کو، اپنی بڑھتی ہوئی، جی ڈی پی کے سہارے ،عالم کے خود کفیل، تیز تر ترقی پذیر ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ جس کی تعریف و توصیف ہی کی خاطر، دل نہ چاہتے ہوئے
بھی، دشمنان اسلام یہود و نصاری طاقتوں نے 2006 کا نوبل امن ایوارڈ کسی مسیحی یا یہودی کو درکنارکر، ان کے ازلی دشمن مسلمانوں میں سے، بنگلہ دیشی محمد یونس کو دینا پڑا تھا۔ چونکہ بنگلہ دیش تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے اور کئی ایک ندیوں نالوں تالابوں پر انحصار کرتے، بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت مچھلیاں شکار کر گزر بسر کرنے کی عادی ہیں، اسلئے اس تناظر میں محمد یونس کا کہنا تھا کہ وہ کسی غریب کو، بازار سے مچھلی خرید کر، اسے دیتے ہوئے، ایک وقت آسودہ ہو کھانے کے لئے اسے چھوڑنے کے بجائے، بھیک میں کچھ روپئیے اسے دینے پر، قول و عمل رسول اللہ ﷺ ، اسے حلال روزی کما کھانے کی ترغیب دینے ہی کے لئے، مچھلی پکڑنے والا جال اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے،
ندی نالے سمندر سے مچھلیاں پکڑ، نہ صرف اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنے پر آمادہ کیا تھا بلکہ مسلم معاشرے میں، ایک مسلم فقیر کی کمی بھی واقع ہونے کے اسباب ہئدا کئے تھے۔ اپاہج لولے لنگڑے فقیروں کو سمجھا بجھا کر ،انہیں حلال رزق کی آہمیت جتا، انہیں حلال رزق سے اپنے بچوں کی پروڑش کیلئے قائل کرتے ہوئے، ایکیسوین صدی کی ابتدا ہی میں، اس وقت موبائل فون ماورائیت کے زمانے میں، گھروں سے نکلے لوگ، اپنے اپنوں سے تعلق برقرار رکھنے، پبلک ٹیلیفون بوتھ پر منحصر جو ہوا کرتے تھے،
ان مجبور و معذور فقراء کو پبلک ٹیلیفون بوتھ لگا کر دئیے ، جہاں معاشرے کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت عام لوگوں کو پبلک کال بوتھ مہیا کرواتے ہوئے، انہی معذروروں کو، انکے لئے حلال رزق کمانے کا بندوبست کیا بنگلہ دیشی محمد یونس نے نہیں کیا تھا؟ اور ساتھ ہی ساتھ مفلوک الحال اپنے وقت کے پس ماندہ ترین ملک کو،آج کے ترقی پزیر بنگلہ دیش تعمیر میں بڑا اہم رول نہئں نبھایا تھا؟ آج کے دور میں بنگلہ دیشی مسلم اکثریت، گداگری کو صدا کے لئے خیر باد کہتے ہوئے، چھوٹی موٹی تجارت و صنعت سے منسلک ہوتے، اپنے ملک کو معشیتی ترقی پزیری پر گامزن کئے ہوئے ہے
۔اللہ رب العزت نے اس کی اپنی مخلوق انسانیت کی،انہیں روزگار پر لگوا حلال و محنت والی حصول رزق پر گامزن کرنے والے محمد یونس کو، آخرت میں اسے بہتر سے بہتر جو جزاء و انعام دینا ہے وہ تو اسے بارگاہ خداوندی سے ملے گا ہی، لیکن رزاق دوجہاں نے اپنے مساکین بندوں کو روزگار پر لگوا، انہیں خود کفیل کرنے یا کرانے کا سبب بننے والے ایکیسویں صدی کی ابتداء والے غیر معروف محمد یونس کو، آج 25-2024 بنگلہ دیش کا صدر مملکت بنائے، اسکے کارخیر کو سراہتے ہوئے دنیا میں بھی اسے جہاں خوب تر بخشا ہے۔
اسکے برعکس شرفاء، زرداران نیز محافظان پاکستان کے عرب ممالک سمیت صاحب امریکہ سے، مختلف مداد ملی امداد پر پلتے پلاتے،حرمین شریفین سمیت عرب کھاڑی ویورپ و امریکہ کے مختلف شہروں میں، اپنے مومن مسلمان 25 کروڑ شہریوں کی ایک بہت بڑی اقلیت کو، بھیک مانگنے کی عادت ڈالے، یا مختلف طریق دھوکہ دہی سے مباح و حرام آغذیہ پر اپنی اولاد کو پالنے کا عادی انہیں بناتے ہوئے، عالمی سطح پر عالم کی اولین معرض وجود لائی گئی مملکت پاکستان کو، اغیار کے سامنے رسواتر ہوئے مجبور جینے چھوڑا ہے
“ساؤ تھ افریقہ سعودیہ یواےای، ہر جگہ سے نکالے جارہے ہیں پاکستانی”
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں، مدینہ کی تجارت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی،وہ اس وقت کے دین ابراہیمی کے پیروکار عربوں کو سود پر قرضہ دئیے، انہیں ہمیشہ سے اپنے زیر نگیں، غیر ترقی یافتہ مفلوک الحال رکھے ہوئے تھے۔
جب اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام لانے والے مسلمانوں میں زکاۃ کا نظام رائج کیا تو کچھ عرصہ ہی میں مدینہ میں زکاۃ لینے والے باقی نہ بچے تھے۔چونکہ زکاۃ کے لغوی معنی ہی پاکیزگی یا صفائی کے ہیں۔اپنی دولت میں سے زکاۃ نکال، جہاں اپنی دولت کو پاک وصاف ستھرا رکھنا مقصود ہوتا ہے، وہیں پر زکاۃ کو ایسے منظم انداز مسلم معاشرے میں تقسیم کرنا مطلوب ہوتا ہے جس سے مسلم معاشرے کی غربت و افلاس و بھیک مانگتی گندگی صدا کیلئے صاف یا ختم ہوجائے۔ آج مسلم اکثریتی معاشرے میں، جتنی زکاۃ نکالی اور تقسیم کی جاتی ہے، اس سے مسلم معاشرے میں دست سوال کرنے والے نظر ہی نہیں آنے چاہئیے۔
لیکن اس کے برعکس مسلم اکثریتی معاشرے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ فقراء و مساکین کی تعداد میں اضافہ ہوتا پایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ، تقسیم زکاۃ میں ہم مسلمانوں کی عدم دلچسپی ہے۔ہم زکاۃ رقوم کو اچھوت گندگی سمجھتے ہوئے،جلد از جلد اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، اسی لئے سب سے پہلے زکاۃ جس نے طلب کی، اسے زکاۃادا کرتے ہوئے، اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں
جبکہ مسلم معاشرے میں جتنی زکاۃ نکالی اور تقسیم کی جاتی ہے اگر منصوبے کے تحت ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، آج کے زکاۃ مستحقین کو کسی پیشہ یا چھوٹی موٹی تجارت سے منسلک کرتے ہوئے، ان میں زکاۃ منظم انداز تقسیم کی جائے، تو معاشرے سے فقراء و فاقہ و تنگ دستی ختم ہوتے ہوئے،پورا مسلم معاشرہ خوشحال ہوتا پایا جاسکتا ہے۔
کچھ سال پہلے رمضان المبارک کے شروعاتی دنوں میں، زکاةمیں تقسیم کرنے نساء کے کچھ کپڑے خریدنے، ہم چینئی ٹمل ناڈ کے ایک بڑے ہول سیل کپڑے تاجر کی دوکان پر پہنچے تو پتہ چلا کہ کسی رئیس نے، کئی کروڑ روپئیے خرچ کئے، ایک دو لاکھ نساء کے لئے مختلف ساڑھیاں، پنچابی سوٹ خرید لئے، مختلف صوبوں شہروں کے خیراتی اداروں کو، ترسیل کئے جانے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے دل میں اس خیال نےکروٹ لی کہ کاش اس رئیس نے،ایک دو لاکھ غرئب نساء کوکپڑےدلوائے انہیں صدا کا ایسی مفت اشیاء کا منتطر بھکاری بنائے رکھنے کے بجائے، کاش اس نے اس چار پانچ کروڑ سے، کم و بیش ایک سو مسلم نوجوانون کو، فی کس ہانچ لاکھ روپئیے دئیے، انہیں خود روزگار چھوٹی موٹی تجارت پر گر لگوادیتے تو، شاید ان سو نوجوانوں سے پچاس فیصد تو کم از کم اپنی تجارت میں کامیاب ہوتے ہوئے
،زکاةکے مستحق رہنے والے، صدا زکاة لینے والے جم غفیر میں سے، اپنی کامیاب تجارت بعد، زکاة دینے والے بنتے ہوئے،ایک سال میں کم از کم پچاس خاندانوں کو، اپنی محنت و عزت والی روزی روٹی کھلا رہے ہوتے۔ ہمارے ذاتی تجارت میں اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہم کس قدر ترقیات کے مدارج پارکرتے پائے جاتے ہیں، کاش کہ ہمارے تونگر حضرات، اپنی خود کی نکالی ہوئی لاکھوں کروڑوں کی زکاۃ رقوم کو، منظم انداز مسلم معاشرے میں تقسیم کرتے یا کراتے ہوئے، اس کے لغوی معنی ہی کے مصداق، معاشرے سے، آج کے زکاۃ لینے والوں کو، تجارتی راہ پر گامزن کرتے ہوئے،
مسلم معاشرے سے بھوک و افلاس و بھیک مانگنے والی گندگی ہی کو پاک و صاف کرتے کیوں نہیں پائے جائیں ہیں؟ اج بھارت پر حکومت کررہی سنگھی مسلم منافرتی ڈبل انجن مدھیہ پردیش سرکار اندور کارہوریشن انتظامیہ نے، مندروں کے شہر اجین میں بھیک مانگنے پر پابندی لگاتے ہوئے، جہاں بھیک مانگنے والے تندرست و معذور فقراء کو، پکڑ پکڑ، انہیں روزگار مہیہ کرنے کرانے والے،این جی او مراکز میں منتقل کیا ہے، وہیں فقراء کو بھیک دئیے انہیں صدا کا بھکاری بنانے والی عام جنتا کو بھی، جرمانے لگوا انہیں فقراء کو بھیک دینے کی عادت سے ماورائیت اختئار کرنے مجبور کیا ہے۔
جس ھندو مذہب میں بھکشا پر پلنے کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے اور جس ملک کا وزیر اعظم بھی، اپنے دئیے ایک انٹرویو میں، جوانی کی دہلئز پر قدم رکھتے ہوئے، گھر سے بھاگے، تیس سال تک در در بھکشا مانگ پلتے، شہر شہر گھومتے، رہنے کا اعتراف تفخرانہ انداز کیا ہے۔ ویسے بھگشا کھائے پلے بڑھے وزیر اعظم کی نفرتی سنگھی مذہبی جنونی پارٹی،اپنے مذہنی آستھا بھکشا کے خلاف اتنی سخت کاروائی کرسکتے ہیں
اور ان کے آسمانی سناتن ھندو دھرم کی مذہبی کتب مختلف وید گرنتھوں میں، انکے قرب قیامت آنے والے ایشور کے آخری دودھ پیغمبر کے حیثیت دنیا میں تشریف لانے والے کلکی اوتار کے معیار و اقدار پر پورا اترنے والے، مسلم معاشرے کو بھیک مانگنے سے بچنے بچانے کی سیکھ دینے والے، نبی آخر الزمان محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہم 300 ملین بھارتیہ مسلمان اور 2 ہزار ملین عالم کے مسلماں، اپنے محبوب نبی محمد ﷺ کی تعلیمات ہی پر عمل پیرا،مسلم معاشرے ہی کو، ان بھیک منگوں سے ماورائیت دلواتے ہوئے،
اپنی نکالی والی زکاةو صدقات رقم کثیر کو، گھر بیٹھے عزت دار حقیقی مساکین کی کچھ ایسے مناسب انداز مدد و نصرت کرائے، آج کے زکاة مستحقین، ان مساکین کو، اگلے کچھ سالوں میں زکاة دینے والوں میں شامل ہونے کا موقع دیتے ہوئے، غیور پارسی تاجر قوم کی طرح پوری مسلم کو، فقراء مکت،صاحب حیثیت تاجر قوم میں تبدیل کرنے کی کوشش، کیا مسلمان مل کر نہیں کرسکتے ہیں؟
زکاۃ کا ایک مصرف غریب و نادار مستحقین زکاۃ بچوں کی دینی و عصری تعلیم بھی ہے تاکہ پڑھ لکھ کر، وہ خود معشیتی طور مضبوط ہوتے ہوئے، اپنے اہل خانہ کو بھیک مانگنے سے آمان رکھ پائیں، لیکن معاشرے کے مقتدر علماء کرام کا ایک طبقہ، جہاں معاشرے کے ان روساء سے،اپنے تعلقات کی بنیاد پر،ان سے زکاۃ کا ایک بڑا حصہ حاصل کئے، انہیں معاشرے کے بڑے بڑے مقتدر عہدوں پر براجمان کراتے ہوئے،
غیر ضروری عالیشان مدارس و مساجد تعمیرکرتے ہوئے، آپ ﷺ کے بتائے زکاۃ مد میں اور کئی مستحقین کو اس زکاۃ سے محروم رکھے پائے جاتے ہیں۔کیا اس سمت تدبر و تفکر نیز تحقیق سے، مسلم امہ میں موجود آج کے زکاة لینے والوں کو، کل کے زکاةدینے والوں میں تبدیل کرتے، کسی جامع منصوبے پر، عمل ہیرائی کی ضرورت کیا نہیں ہے؟زکاۃ کے مصارف 7 ہیں:- فقیر، مسکین، عامل، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
1) فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کیلئے بھی لوگوں سے دست سوال کا محتاج ہو۔ جس کے پاس رات کا کھانا موجود ہو تو اسے بھیک مانگنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔اس لئے کہ تقدیر پر بھروسہ کئے، اگلی صبح روزگار پر نکلے وہ کچھ کما کر کھا سکتا ہے
2) مسکین وہ شخص ہے جسکے پاس کچھ ذرائع آمدنی ہے، مگر اتنا نہیں کہ اسکے زیر کفالت لوگوں کے لئے بس ہوجائے۔کمائی سے زیادہ جائز اخراجات والا ہی مسکین ہوا کرتا ہے۔ بھلے ہی کسی کی تنخواہ ظاہراً کئی ہزار پر مشتمل کیوں نہ ہو،لیکن اسکے ماتحت زیر مکفول رشتہ داروں کی تعداد کچھ اتنی ہو کہ اسکی آمدنی اسکے جائز اخراجات کے لئے ناکافی ہوتے، اسے ہر ماہ قرضدار ہوتے رہنا پڑتا ہے۔
اور معاشرے میں اپنی عزت قائم رکھنے وہ کسی اور کے آگے دست سوال نہیں کرتا ہے۔ایسے بظاہر خوش لباس عزت دار مساکین کو اپنے آس پاس اپنے رشتہ داروں میں، اپنےگھر آنگن، پچھواڑے گلی محلے یا گاؤں دیہات میں،ڈھونڈ ڈھونڈ، اگرکوئی اپنی زکاة ان تک خاموشی سے پہنچاتا ہے تو، وہی زکاة مستحقین کی ضرورت اعتبار سے ہمیں کئے گنا زیادہ ثواب و اجر دے جاتی ہے۔
3) عامل وہ ہے جسے اسلامی سلطنت میں زکاۃ اور عشر وصول کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
4) رِقاب سے مراد ہے غلام کو خرید کر اسے رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔ ہاں البتہ اپنے کفر والے معاشرے کو چھوڑ حلقہ بگوش اسلام ہونے والے نومسلموں کے تالیف القلوب ہی کی خاطر انہیں معشیتی طور مستحکم کرنے، اس مد میں زکاۃ دی جاسکتی ہے۔اور فی زمانہ اس کفریہ ماحول میں شرپسند اسلام دشمن حکمرانوں کے عتاب کا شکار بنے جیلوں میں زمانے سے سڑ رہے، بے قصور یا چھوٹے موٹے قصور کے ساتھ مسلمان ہونے کی پاداش میں پابند سلاسل کئے گئے ہوں، ایسے بے قصور مسلم و غیر مسلم بھائیوں کو، اس جیل سے چھٹکارا دلوانے، وکلاء مصارف پر زکاة خرچ کی جاسکتی ہے
5) غارم سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا جائز قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ اپنے تعیش پسندی کےلئے، قرض پر قرض لئے، سودی قرض کے بوجھ تلے دبے فی زمانہ ہم مسلمانوں کو، اپنی زکاۃدی جاسکتی ہے یا نہیں، یہ علماء حق سے استفسار کا موضوع ہے۔کیوں کے مسلم معاشرے میں ایسے مفسدین کی کوئی کمی نہیں، ماہ رمضان زکاة وصول کر قرض ادا کرنے کی نیت سے یہ لوگ اپنے تعیش پسندی میں، صدا کے مقروض رہا کرتے ہیں۔
6) فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ اللہ کی راہ دعوت و تبلیغ کے لئے جانا چاہتا ہے اور اسکے پاس رقم نہیں تو اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
7) ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے،اور پردیس میں وہ مجبور ہوجائے تو ایسے مجبور مسافر کو بھی زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم
مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل جیسے، سو سالہ مرکزی ادارے میں جہاں زکاۃکی کئی ایک مدات کو ملحوظ رکھتے ہوئے،عزت دار گھرانوں میں ماہانہ راشن پانی پہنچانے کا انتظام کرتے، سالانہ کروڑوں زکاۃ تقسیم کا خاطر خواہ انتظام ہے، کیا
ہم اپنی زکاۃ کےایک کثیر حصہ کو، ایسے اداروں میں دیتے پائے جاتے ہیں؟یا نام نمود کیلئے، ہم سے کوئی اور زکاۃ ہتھیانے میں کامیاب ہوتا ہے، اس کا محاسبہ ہمیں خود کرنا ہے۔اللہ ہی ہم مسلمانوں کو اپنے مال ودولت و املاک کی پوری پوری زکاۃ نکالنے اور اسے صحیح مستحقین تک پہنچانے توفیق دے۔ وما علینا الا البلاغ۔