ہم بکھر نہیں، نکھر رہے ہیں !
اس وقت ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہے ا وراس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے، پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے، مہنگائی زوروں پر ہے، ملک کا بال بال قرضے میں پھنسا ہوا ہے،جبکہ اس کے وزیر اعظم نے دنیا کی سب سے بڑی کابینہ بنا ڈالی ہے اوراس کے اجلاس کیبنٹ روم کے بجائے کنونشن ہال میں ہورہے ہیں، ارکان اسمبلی نے خزانہ خالی ہونے کے باوجود اپنی تنخواہیں 200 فی صد تک بڑھائی ہیں، جبکہ وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں،
دس پندرہ فی صد بڑھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، جبکہ عالمی جائزے کے مطابق کرپشن میں پاکستان کا ایک درجہ مزید بلند ہوگیا ہے، امن وامان کا یہ عالم ہے کہ ملک کے دو صوبے پوری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اور عام آدمی کہیں محفوظ نہیں رہا ہے، ییہاں پرٹرین تک اغوا ہورہی ہے،اگر ان حالات میں پوری دنیا سانحہ غزہ پر سفاکی کا مظاہرہ کررہی ہے اور پاکستان کی حماقتوں کا مذاق اڑا رہی ہے تو تعجب کی کونسی بات ہے ؟
اگر دیکھا جائے تو ہماری اتحادی حکو مت نے خود ہی اپنی حماقتوں کے باعث دنیا کو اپنا مذاق بنانے پر مجبور کیا ہے ، حکو مت جو کچھ بھی کررہی ہے ، اس کو دنیا دیکھ رہی ہے اور سمجھ بھی رہی ہے کہ کیا ہورہا ہے ، یہ قرض پر قر ض لے کر کزانہ بھر جارہا ہے اور پھر کود ہی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے،اس لیے نہ صرف مذاق اُڑایا جارہا ہے ،بلکہ تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے، امر یکا اور یورپی یونین انتخابی دھاندلی سے لے کر انسانی حقوق کی پا مالی اور کرپشن تک پر بارہا اظہار تشویش کر چکے ہیں ،
لیکن حکو مت سب کچھ اچھا ہے کی ہی گردان کیے جارہی ہے اور اپنے ساتھ عوام کو کو بھی بہلائے جارہی ہے ، جبکہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے ، ایک طرف سیاسی انتشار بھڑتا جارہا ہے تو دوسری جانب قیام امن تباہ و بر باد ہوتا جارہا ہے ،عوام سو چنے لگے ہیں کہ آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق فی الوقت ناپید ہو چکے ہیں اور اس قسم کے حالات نے دوصوبوں میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب کر دی ہے ، جبکہ اب صوبہ سند ھ میں بھی پانی کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج شروع ہو گیا ہے۔
اس ملک کے عوام میںا ٓئے روز بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور حکومت ایسے چین کی بانسری بجائے جارہی ہے کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہورہا ہے،پا کستان کے دوصوبے ایک دہکتے ہوئے الاوکی صورت اختیار کر چکے ہیں، اس خطے میں ایک طرف دہشت گردی کا سایہ ہے تودوسری جانب بغاوت کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں، نفرت، بداعتمادی اور بے یقینی کی فضا چار سو چھائی ہوئی ہے،اس میں حکو مت سنجید گی سے اپنا کردار ادا کر نے کے بجائے سیکورٹی اداروں کے ہی کندھوں پر سارابوجھ ڈالے جارہی ہے
،وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ احتجاج و انتشار پہلانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ، جبکہ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تمام ملکی اور غیر ملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں بے نقاب ہو چکی ہیں، ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کوکسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے، جو کہ بار بار دہرائی جارہی ہے،ایک بار پھر وہی زبان استعمال کی جا رہی ہے اوروہی رویّہ اپنایا جا رہا ہے جو کہ ماضی میں اپنایا گیا تھا، اْس وقت بھی آئینی اداروں کی بے توقیری کی گئی، عوامی رائے کو شرپسندی قرار دیا گیا، اور طاقت کی زبان بولی گئی ،اس کے نتیجہ میںپاکستان دو لخت ہو گیا، کیا ایک بار پھر اپنا ماضی دہرانے جارہے ہیں؟
ہم نے اپنی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اُن سے سبق سیکھنا ہے اور اس بات کو ماننا ہے کہ الجے معاملات بندوق کے زور پر نہیں سلجھتے ، بلکہ مذید الجھتے ہیں ، ہر مسئلے کا حل مذاکرات سے نکلتا ہے اور مذاکرات ہی کر نے چاہئے، لیکن مذاکرات عوام کے حقیقی نمائندوں کے ذریعے ہی ہونے چاہئے اور انہیں با اختیار بھی بنانا چاہئے ، چاہیے، تاکہ بے یقینی کو یقین میں بدلا جاسکے ، احساس محرومی دور کیا جاسکے ، ناراض لوگوں کو منایا جاسکے ، اس کیلئے گر فتاریاں اور نظر بندیاں کر نے کے بجائے گرفتار لوگوں کی رہائی کر نی چاہئے ، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، سردار اختر منگل اور عبدالمالک بلوچ جیسے عوامی رہنمائوں کو آگے لانا چاہئے اور انہیں ناراض لوگوں کو منانے کا ٹاسک دینا چاہئے ،
لیکن اس سے قبل ضرورت اس امرکی ہے کہ گرفتار سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے، عسکری کارروائیوں کو بند کیا جائے، اور ایسا ماحول بنایا جائے کہ جس میں بلوچستان کے عوام کو اپنی بات کہنے کا حق ملے اور ریاست ان کی بات سننے ،اگر پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور باشعور عوام اپنا آئینی کردار ادا کریں گے، تو درپیش مسائل کا حل ضرور نکلے گا اور ہم بکھرنے کے بجائے نکھر جائیں گے بصورت دیگر حالات ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پھر چاہ کر بھی بکھرے سمیٹ نہیں پائیں گے۔