Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

“جہاں جو بھی اچھی چیز ملے اس سے استفادہ حاصل کیا جائے۔” مولانا خالد غازی پوری مدظلہ

ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین

ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین

“جہاں جو بھی اچھی چیز ملے اس سے استفادہ حاصل کیا جائے۔” مولانا خالد غازی پوری مدظلہ

نقاش نائطی
۔ +919448000010

مدرسہ خیر العلوم بھٹکل
اجلاس عام تکمیل حفظ قرآن و دستار بندی 18 اپریل 2025
احقر کے 68 سالہ طویل تر زندگی کے سفر میں، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی تعمیر عمارت کو حیات دوام پہنچانے والے چار ستون مانند،ایک ساتھ چار حفاظ قرآن کریم کے رسم ختم قرآن و دستار بندی کوبراہ راست دیکھنے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اپنے تلمیذ جامعہ اسلامیہ بھٹکل درجہ عربی اول کے استاد المحترم حضرت مولانا صادق اکرمی ندوی مدظلہ ،جو احقر کے تفکر و تخیل کے اعتبار سے، اہل طریقت ولایت میں، علاقے کے عالی مرتبت بزرگ ترین شخصیت میں سے ہیں، اس پر نور شخصیت نے جس نورانی انداز ختم القرآں تقریب کا اہتمام کیا تھا ایک وجدانی کیفیت سی طاری ہوگئی تھی۔ اور ہمیں بادنسیم کےجھونکوں پر، پرواز کراتےہوئے،

شمس الدیں سرکل پر اسوقت واقع, مدرسہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور المحترم مہتمم جامعہ ابولحسن ماسٹر علیہ الرحمہ کی ایک مخصوص انداز کان مروڑ کھینچ اواز نکال دی جانے والی سزا، المحترم مولانا اقبال ملا ندوی علیہ الرحمہ کی جلالی کیفیت، المحترم سلیم و خان ماسٹر مرحوم علیہ الرحمہ کی بیت کنی انداز تربیت، المحترم شفیع ماسٹر و مولوی صادق اکرمی مدظلہ کے مشفقانہ تدریسی ادوار ,و سال میں دو ایک مرتبہ ،سینیر طلبہ واساتذہ کے ساحل سمندر تفریحی تعلیمی تدریبی پکنک مناتے خوش کن لمحات کی یاد، ذہن کے دریچوں سے، دید کراتے ماضی کے ان منٹ نقوش کو تازہ دم کرگئے۔

اللہ سے دعا کہ ہم میں، علوم دینیہ کے انمنٹ نقوش جو انہوں نے منعکس کرتے ہوئے، ہماری بہتر تربیت کی ہے، ان تمام اساتذہ کرام کی جو ہمارے درمیان،اب نہیں ریے، انکی بال بال مغفرت فرمائے اور جو اساتذہ کرام ابھی ہمارے درمیاں زندہ حیات سے ہیں، انہیں صحت و عافیت والی زندگانی عطا فرمائے اور ان سے قوم و ملت کو بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔

آج کے اس اجلاس دستار بندی کے لئے، مرکز علم و عرفان دینیہ، ندوہ العلماء لکھنو سے خصوصی طور بحیثیت مہمان بلائے گئے، المحترم استاد سابق جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور موجود استاد ندوہ العلماء لکھنو المحترم مولانا خالد غازی پوری کے استادانہ ارشادات، واقعی قابل تعریف تھے۔انکے ارشادات اردو ادب بلاغت والے الفاط و ترکیبات سے مزین انتہائی بلیغ استادانہ ہوتے ہوئے بھی، انتہائی سلیس و عام فہم تھے۔ جو انکے استادانہ علمی تفکرات موجزن ہونے کے غماز تھے۔ المحترم استاد حضرت مولانا خالد غازی پوری نے برملا کہا۔جہاں سے بھی اچھا علم دستیاب ہو اس سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا چاہئیے،

کوئی ایک درخت لگاتا ہے لیکن زندگی بھر، اسی ایک درخت سے استفادہ کے بجائے، اس ایک درخت کے طفیل ہزار ایسے درخت لگوائے، اسکا استفادہ عام کرتا چلا جاتا ہے۔بھٹکل جامعہ اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس سے علم حاصل کئے، بے شمار فارغین جامعہ اسلامیہ نے،بیرون بھٹکل ٹینگنگنڈی شرالی،منکی مرڈیشور ، شیرور، بیندور کنڈلور، منگلور نہ صرف متعدد مدارس و مکاتب قائم کئے ہیں بلکہ استاد جامعہ المحترم ایوب برماور مدظلہ اور انکے ساتھیوں نے، پورے بھارت بھر میں، مدارس و مکاتب کا جال جو بچھایا ہے اس کا صلہ و ثواب بھی بانیان جامعہ اور خصوصا بانیان جامعہ کے دل میں جامعہ کی بنیاد رکھنے کی فکریں ودیعت کرنے والے، مہتمم آئی اے یو ہائی اسکول بھٹکل، عثمان حسن مرحوم علیہ الرحمہ کو بھی پہنچتا ہے۔

ہمارے آل عرب آل بھٹکل آباء و اجداد نے،ہزار پندرہ سو سال قبل، شہر بھٹکل و آل بھٹکل کے لئے جماعت المسلمین بھٹکل ادارے کا قیام کرتے ہوئے ہمارے آپسی خانگی ازدواجی و معشیتی معاشرتی الجھے ان سلجھے مسائل کے مفاہمتی انصاف، حل کے لئے، جماعت المسلمین کے ماتحت جو محکمہ شرعیہ قائم کیا تھا،اس غیر تمدنی ترقی یافتہ دورسے، اس دورجدید تک،حکومتی محکمہ عدل و انصاف دستیابی باوجود، ہمارے اسلاف نے، ہمیشہ ہی سے ایک تجارتی قوم ہونے کی وجہ، آپس کے اختلافی امور کو،ہمیشہ سے محکمہ شرعیہ ہی سے حل کروانے کی کوششیں کی تھیں۔ ابھی اس ایکیسویں صدی کی ابتداء میں، مسلم پرسنل لاء بورڈ ذمہ داران کی بھٹکل آمد دوران، جماعت المسلمین بھٹکل محکمہ شرعیہ کے پاس موجود ایک ہزار سالہ تصفیاتی فیصل ریکارڈ دیکھ کر، انہوں نے بجا فرمایا تھا

کہ “1947 غیر منقسم مشترکہ ھند و پاک میں، شہر بھٹکل کو سب سے پرانا ہزار سالہ محکمہ شرعیہ( نظام عدلیہ) ہونے کا اعزاز، نہ صرف حاصل ہے، بالکہ آہل بھٹکل کے تقریبا” صد فیصد خانگی ازدواجی معشیتی و معاشرتی مسائل، جس طرح سے حکومتی عدلیہ سے پرے،اپنے دینی محکمہ شرعیہ میں حل کئے جاتے ہیں، اس راہ پر پورے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلم امہ کو گامزن کرنے کی ضرورت ہے”۔ہمارے اسلاف بھٹکل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے جب پورے ھند میں مجدد تعلیم عصر حاضر، سر سید احمد خان علیگڑھ میں محمڈن کالج، اور بعد کے دنوں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کررہے تھے

انہی ایام اس لاسلکی عصری تعلیم، دور جاہلیت میں، ہمارے اسلاف نے، شہر بھٹکل والوں کو، دینی اثاث کے ساتھ عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیوستہ کرنے کرانےکے لئے، علیگڑھ طرز انجمن حامی المسلمین بھٹکل اور اہل بھٹکل کی معشیتی معاشرتی و سیاسی اصلاح و آگہی کے لئے مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کی بنیاد ڈالی تھیں اور الحمد للہ آج بھی، پنچایتی، شہری بلدیاتی، ریاستی اسمبلی، اور مرکزی پارلیمنٹ انتخاب کے موقعوں پر، تقریبا” صد فیصد اہل بھٹکل، اپنے قیمتی ووٹ،اسی امیدوار کے حق میں دیتے پائے جاتے ہیں،

جس کے حق میں ووٹ دینے یا دلوانے کا فیصلہ مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کرتی ہے۔ انجمن حامی المسلمین کی تاسیس پر، ابھی پورے نصف صد سال بھی نہ گزرے تھے خود مہتمم اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول المحترم مرحوم عثمان حسن علیہ الرحمہ نے، پھلتے پھولتے اور تقرقی پزیزی کے مدارج طہ کرتے کراتے دور انجمن میں، شہر بھٹکل میں انجمن حامی المسلمین ہی کے طرز، نہ صرف جامعہ اسلامیہ ادارہ قائم کرنے کرانے کی سوچی تھی، بلکہ بانی جامعہ اسلامیہ المحترم مرحوم ملپا علی صاحب علیہ الرحمہ سے، یوم جمعہ قبرستان سے واپسی پر،ان کے تکیہ محلہ قائم مطب میں مکرر جاتے ہوئے اور ان سے مکرر ملاقاتیں کرتے ہوئے،انہیں جامعہ اسلامیہ قیام پر نہ صرف اکسایا تھا، بالکہ مدرسہ جامعہ اسلامیہ قیام کی صورت اپنے بہترین چند طلبہ بھی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں عبداللہ کوبٹے اور المحترم مولانا صادق اکرمی مدظلہ سمیت المحترم مرحوم اقبال ملا ندوی صاحب علیہ الرحمہ اور محترم مرحوم مولانا غزالی علیہ الرحمہ تھے۔بانی جامعہ اسلامیہ ملپا علی علیہ الرحمہ سے مسلسل ملاقاتیں کر، انہیں دینی علوم مدرسہ قائم کرنے کی فکر دلوانےوالے مہتمم آئی اے یو ہائی اسکول المحترم مرحوم عثمان حسن علیہ الرحمہ کو، کیا غدار انجمن کہیں گے یا مصلح قوم اہل نائطہ کہیں گے؟

اسی کے دہے کے آس پاس، انجمن حامی المسلمین ادارے ہی کے بعض ذمہ داران و اراکین انتظامیہ نے، الگ سے ذاتی نوعیت کا عصری تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا تب بھی ہم اس وقت مرکزی تعلیمی ادارے کے مقابلے میں، مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق میں تھے۔ یہ اس لئے خوشگوار انداز مختلف تعلیمی اداروں میں، مسابقت برقرار رہتے، تعلیمی اقدار بہتر ہونا متوقع تھے اور یہی ہوا انجمن حامی المسلمیں تعلیمی ادارے کے مقابلے کئی ایک تعلیمی ادارے قائم ہونے کے باوجود، اور آج بھی علاقے میں نومولود کئی تعلیمی اداروں کی استحکامیت برقرار رہنے کےباوجود، انجمن حامی المسلمین کی مرکزیت و افادیت و اسکا تعلیمی اقدار و معیار پہلے سے زیادہ معاشرے میں اہمیت کا حامل یے۔ اور تو کالیکٹ ویناڈ منعقد بین الجماعتی کانفرنس میں، انجمن حامی المسلمین پر تدبر و تفکر والے سیشن میں،استاد جامعہ اسلامیہ کا دوران بحث و تمحیص، بہت جلد دینی اثاث عصری تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا برملا چیلنچ کئے،

بعد کے دنوں علی پبلک اسکول قائم کرنے کو، انجمن حامی المسلمین مرکزی عصری تعلیمی ادارے نے،کبھی اپنے لئے نقصان دہ نہیں مانا ہے،پھر کیوں استاد جامعہ اسلامیہ کے، اپنے تفکراتی دینی مدرسہ خیرالعلوم قائم کرنے پر اتنا وایلا مچایا جارہا ہے؟ کہنے کو تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن اندرون خانہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ انجانی محترم قوتیں بیرون جماعت اپنے اثر و رسوخ کے ساتھ، اپنے فارغیں جامعہ ادارے کے توسط سے، مد مقابل دینی ادارے کو ، معشیتی طور کمزور رکھنے پر مائل ہیں، سازشین رچی جاتی ہیں مکر وفریب کئے جاتے ہیں اور سوال کرنے پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک بتایا جاتا ہے۔ تمدنی ترقی پزیر شہر بھٹکل میں نوجوان نسل کی بگڑنے اور بگاڑنے والے متعدد مراکز کھلتے رہتے ہیں،

لیکن اس کے لئے اتنی فکرین نہیں کی جاتی ہیں جتنا کہ اس کا حق ہے، لیکن انجانی مذہبی قوتوں کی طرف سے خیرالعلوم مدرسہ کے خلاف کچھ ایسی تدبیرین عمل اور ہوتی رہتی ہیں جیسے خیر العلوم دینی علوم تدریبی دینی ادارہ نہ ہو بالکہ نفاق امت مسلمہ کے لئے وجود میں آیا کوئی مہلک ادارہ ہو۔ ہمیں یاد پڑتا ہے خلیج ممالک بہتر روزگار گئے، ہم کچھ دوستوں نے وحدةالوجود تفکر سے ماورا ، خالص وحدانیت والے دعوت سلف و صالحین کو،شہر بھٹکل میں، ہم نے جب متعارف کیا تھا تو، یہی وہ انجانی قوتین تھیں،جو ہمیں ضالین میں سے اور ہماری اہل حدیث تفکر والی مسجد بخاری کو مسجد ضرار ٹہرانے سے باز نہیں آتے تھے۔آج وہی انجانی قوتین بزرگ ترین مصلح قوم المحترم مولوی صادق اکرمی ندوی مدظلہ کی سرپرستی میں قائم ہوئے، دینی تعلیمی ادارے خیر العلوم ہی کو، اپنی نفرت کے نشانے پر رکھے ہوئے یے،

ویسے کہنے کو تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن سب کچھ ٹھیک ٹھاک بھی نہیں ہے۔ حافظ قرآن حامل قرآن ہوتا ہے، کوئی شرک و بدعات والے ادارے کا تعلیم حاصل کیا حافظ قرآن ہی کیوں نہ ہو؟ کیا خیر العلوم کے فارغیں حفاظ کرام کی تہنیت و دلجوئی،اسلامی نقطہ نظر سے ضروری نہیں ہے؟ آخر کیوں ہزاروں ندوی تفکر علماء والے پس منظر میں، خیرالعلوم مدرسے کے فارغین حفاظ کرام کے ساتھ یہ سلوک ناروا کیوں؟ اور سب سے اہم سابق استاد جامعہ بھٹکل اور حالیہ استاد ندوہ العلماء، المتحرم مولانا خالد غازی پوری مدظلہ کے، پر مغز استادانہ کلام سے، ماورائیت کیوں برتی گئی تھی؟ کثرت علماء سے زرخیز علاقہ بھٹکل، جب کسی بھی محفل میں، متعدد علماء کرام منٹوں میں جمع ہوجاتے ہیں،

تب خیر العلوم فارغین تحفیظ القرآن دستار بندی سے والیان و داعیان دین اسلام آخر غائب کیوں تھے؟ کیا دانستہ انجانی داعیانہ قوتوں سے، خیرالعلوم مقاطعہ مطلوب تھا؟ اسلام میں مشاورت سے امارتی فیصلوں کا نفاظ عموما” کامیاب انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن یہاں امیر مشتہر سے ماورا،آخر کون انجانی قوت ہے؟جو پورے بھٹکل معاشرے کو، دینی اقدار صف بستہ، اپنے اشاروں پر گامزن کئے ہوئے ہے؟ وہ قوت بظاہر اقتدار کے نشے سے ماورا، ہر فیصلے اپنی مرضی کے کروانے پر مصر کیوں لگتی ہے؟ عوامی فیصلوں کو دینی اقدار کا رنگ دئیے،

زبردستی نفاذ عوام کیا جانا، معمول سی بات ہوکر رہ گئی یے۔فی زمانہ عالم کی سب سے بڑی مختلف المذہبی سیکولر جمہوریت میں، اسلام دشمن سنگھی قوتیں، جس شازشانہ حکمت عملی کے ساتھ، اپنے اسلام و مسلم دشمن فیصلوں کو، مسلم بہتری کے بہانے، مسلم امہ پر نافذ العمل میں کامیاب لگتی ہیں، شہر بھٹکل میں بھی ایک انجانی قوت، صرف اس کے لئے، بھلے برے فیصلوں کو، دینی حمیئت و وقار کا معاملہ بنائے، نفاظ مسلم امہ بنانے میں صدا کامیاب لگتی ہے۔ شہر بھٹکل کے سب سے بڑے خود ساختہ خاندان ندویت نے، اپنے تفکرات سے انحراف کرنے والے ندوی استاد علماء کرام تک کو، حاشییے پر رکھنے کے وطیرہ میں، خوب تر مہارت حاصل کرلی ہے۔ کچھ یہی حال سابقہ دو تین دہوں سے احقر کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔
احقر کو زمانہ تلمیذی کلیہ والے دور بعد، بھٹکل قیام دوران اور انجمن حامی المسلمین تعلیمی ادارے کے اولڈ بوائز ایسوسئیشن کے سرگرم رکن ہوتے ہوئے، المحترم مولانا اقبال ملا ندوی مرحوم علیہ الرحمہ کی ایما ہی پر،عربی اول تک جامعہ، علم دین حاصل کرنے ہی کی وجہ سے، فارغین جامعہ اسلامیہ بھٹکل طلباء سے ربط خاص قائم کئے،ابناء الجامعہ کے قیام کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ان ایام نو رکنی ابناء الجامعہ کی فہرست، تفصیلی رپورٹ نقش نوائط طباعت کے لئے بھیجی گئی تھی۔ اس نو رکنی اراکین تاسیس میں، کالج گریجویت فاروق شاہ بندری کا نام دیکھ کر، اس وقت مدیر نقش عبد الرحیم ارشاد علیہ الرحمہ نے، ہمارے نام محمد فاروق شاہ بندری کے آگے، مولوی اور پیچھے منکوی لکھا تھا۔

گو بعد میں انہوں نے معذرت بھی کی تھی اور کئی مرتبہ متعدد اساتذہ کرام جامعہ اسلامیہ نے ہمیں رکن تاسیس ابناء الجامعہ قرار بھی دیا تھا۔یہاں تک کہ خطیب قوم سابق، المحترم مرحوم حضرت مولانا عبدالباری ندوی علیہ الرحمہ نے،اپنے دورہ سعودی عربیہ الجبیل جلسہ عام میں، ابناء الجامعہ ذمہ داران منطقہ شرقیہ کو مخاطب کر، ابناء الجامعہ کا ہمیں رکن تاسئس قرار دیا تھا۔ پھر بھی آخر کیوں، ان دس بیس سالوں میں، ابناء الجامعہ منطقہ شرقیہ نے ، اپنی نشستوں میں، اپنے ہی ادارہ کے رکن تاسیس کو دانستہ نظر انداز کیا؟ کیا

صرف ہمارے انداز تفکر سلف و صالحین نے، ہمیں ابناء الجامعہ سے دور رکھنے، ذمہ داران ابناء کو مائل و مجبور رکھاتھا؟ یہاں ایک بات کھل کر کہنے سے ہم عار محسوس نہیں کرتے ہیں کہ اسی کے دہے سے پہلے والے شرک و بدعات، اممنے اوممنے بدھوار شیرنی جمع کرنے کروانے اور مزے اڑوانے اور متبرک راتوں کو لالٹین بردار جلوس نکالنے، گھر گھر نارئیل تیل جمع کراتے پس منظر کو، مصلح قوم فارغین ندوہ اولی، حضرت مولانا اقبال ملا ندوی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا صادق اکرمی ندوی مدظلہ کا جہاں بڑا ہاتھ ہے وہیں،

خلیج ریگزارعرب، خصوصا” مملکت سعودی عرب، مصروف معاش ہم تارکین وطن کا بھی بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے پیٹرو ڈالر کثرت کے ساتھ، عالم اسلام کو شرک و بدعات سے مبراء اہل سلف و صالحین کے دین حنیف سے بھی متعارف کیا یے۔دنیا کی تاریخ شاہد ہے۔سکوت غرناطہ اسپین اور سکوت بغداد بعد، عالم پر پیر ہھیلاتی برطانوی حکومت نے،ہم مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کو کمزور کرنے کی جو سازشین رچی تھیں، خلافت عثمانیہ والے دور خلافت میں بھی ، مسلم امہ عالم میں، وہی شرک و بدعات پیوست کئے، نام نہاد مسلمانوں کی طرح ہم جئے جارہے تھے۔سکوت خلافت عثمانیہ بعدمملکت سعودیہ سمیت تمام عرب اقوام کے مصلح، الشیخ محترم عبدالوہاب نجدی علیہ الرحمہ کے عرب اقوام کےایمان و عقیدہ پر، ان ایام کی گئی

محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ، اسی کے دہے کے بعد، عرب ممالک خصوصا” مملکت سعودی عرب، قطر،امارات کویت پیٹرو ڈالر کمانے پہنچے پورے عالم کے ہم مسلمان، اپنے ساتھ پیڑو ڈالر ڈھیر ساری دولت کے ساتھ، جتنے کنکر اتنے شنکر والے تفکر وحدہ الوجود سے مبراء، سلف و صالحین کا دین اسلام دولت بیش بہا بھی ،اپنے اپنے ممالک لے آنے تھے اور وہاں وہاں کی ایک حد تک شرک و بدعات اصلاح کرنےکامیاب ریے ہیں۔

کچھ انہی عرب ممالک پیٹرو ڈالر کا کمال تھا اسی نوئے کے فہے سے قبل یورپ و امریکہ کے مسلمانوں کو نماز پنجگانہ کے لئے،مساجد فقدان کے باعث،ذاتی رہائشی گھروں کے دالانوں صحنوں کو بدرجہ مجبوری استعمال کرنا پڑتا تھا،آج انہی یورپی امریکہ شہروں کے کیلساؤں کو،مسلمان خرید خرید کر، انگنت عالیشان مساجد میں تبدیل کررہے ہیں۔ بے شک خیر کے کاموں میں بھی جتنی زیادہ مسابقت ہوگی اتنا ہی دین اسلام کا کام بہتر انداز ہوگا۔انشاءاللہ۔ وما التوفیق الا باللہ

Exit mobile version