22

مسلمانوں کے قائد علم و عرفاں ہونے کا، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا؟

مسلمانوں کے قائد علم و عرفاں ہونے کا، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا؟

نقاش نائطی
+919448000010

فی زمانہ اس عصری علوم جدت پسندی والے دور ترقی پزیری میں، اپنے وقت کے خلافت راشدہ بنو امیہ سے خلافت عثمانیہ تک والے اسلامی سلطنت رہنمائی میں، تقریبا” دو تہائی عالم انسانیت نے، عالم انسانیت پر، رب کائینات کی طرف سے اتارے گئے،کتاب ہداہت آسمانی، قرآن مجید احکام خداوندی ہی کی روشنی میں، علوم عصر حاضر ارض و سماوات بر و بحر، جنگل و بیابان، جبل و صحراء، شمس و قمر، ماہ و انجم و جمیع مخلوقات ارض و سماوات پر تدبر و تفکر و تحقیق کئے، علم عصر حاضر کی دولت بے بہا سے، عالم انسانیت کو روشناس کرتے ہوئے، بغیر تفاوت مذہب و ملت، اسی فرقہ انسانیت نے، ہم جمیع انسانیت پر راج کیا ہے۔

ابتداء میں،اسلامی خلافت راشدہ، کتاب ہدایت رشد، قرآن مجید احکام خداوندی کی روشنی میں، جب مسلمانان سلف و صالحین نے،حکم اولی قرآن، “خلق الانسان من علق” کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوششیں کی تھیں، بھلے ہی”خلق الانسان من علق” کی گتھی سلجھنے، سات سو سال کا طویل عرصہ لگا ہو، لیکن علوم سائینس و جغرافیہ و ریاضی کے کتنے ہی پنہاں ابواب کو، مسلم محققان نے طشست از بام کئے، علم عصر حاضر کی موجودہ ترقیات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ اور بات ہے زوال اسپین و بغداد بعد، عالم انسانیت پر، یہود و نصاری مشترکہ حربی طرز،طلوع ہوتا فرنگی شہنشائیت والا سورج، اپنے پورے مکر و فن کے ساتھ،دین اسلام کو اپنا ازلی دشمن تصور کئے، اسے دیوار ہزہمت سے لگائے،

اور اقوام آسمانی کو دانستہ آگے کئے، محققان دین اسلام کاوشوں کو اپنی فرنگیت افکار میں لپیٹے، اسلامی خلافت عالم کو زیر کرنے ہی کی فکر میں سرگرداں پائے گئے ہیں۔ اور سکوت استنبول ترکیہ بعد، جس منظم انداز یہود و نصاری عالم اسلام، دشمن حربی گٹھ جوڑ نے، خلافت عثمانیہ، مسلم اکثریتی سلطنت و علاقوں کو، ربع صد سے زیادہ، علاقائی عصبیتی عرب شاہوں والی مملکتوں والے بے وقعت ٹکڑوں میں تقسیم کئے، اور وسط عرب ریاست, وقت خلافت راشدہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے زمانے سے، مسیحی حکمرانوں کے عہد و پیماں، ارض فلسطین سے در بدر کئے گئے نازی یہودیوں کو، دوبارہ تیرہ سو سال بعد، ارض فلسطین لا بسا، عرب شاہوں کو نکیل ڈالے، ان سے پٹرو ڈالر دولت کو جس طرح سے لوٹا جارہا ہے، وہ کسی بھی طرح تمدنی ترقی پزیر، اہل علم انسانیت سے مخفی نہیں ہے۔

اور حالیہ سال دو سالہ حرب فلسطین و یہود، زوال خلافت عثمانیہ، عالم انسانیت پر زبردستی نافذ کی گئی جمہوری اقدار حکومت و عالمی اقدار اداروں کے، عالم انسانیت فلسطین پر نازی یہودی افواج کے ظلم بیجا کئے جاتے پس منظر باوجود، جمہوری اقدار عالم قوتوں کا، یوں بے بس انداز ظلم یہود دیکھنا، برداشت کرنا، نظام جمہوریت انسانی کے مکمل ناکام ہونے کی دلیل پیش کئے جاتے، کسی اور نظام امن و سلامتی کے عالم انسانیت پر روا رکھے جانے کی پر زور وکالت کررہا ہے۔ کیا اس علم و عرفاں ترقی پزیری معراج دور میں، نام نہاد اعلی تعلیم یافتگان، یہود و ہنود و نصاری کےظلم و انبساط کو روا رکھے،فقط تماشائی بنے، دیکھتے کیا رہ پائیں گے؟ ظلم جب حد سے زیادہ تجاور کرجاتا ہے تو مظلوموں سے ظلم کے خلاف ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے جس کا متحمل ترقی پزیر زمانہ بھی ہو نہیں پاتا ہے۔

ابھی حال میں سابقہ پچہتر سال یہود ونصاری عالمی قید خانہ غزہ سے اٹھا طوفان اقصی کیسے باری بڑی عالمی حربی قوتوں کو پاش پاش کرگیا اس کا بخوبی مشاہدہ اس ترقی پزیر عصری دنیا نے بخوبی دیکھ لیا ہے۔ظلم بے جا کا لاوا جب آتش فشان کی طرح پھٹ پڑتا ہے تو اڑتے گلیڈر سےدشمن کی سرحدوں میں اترتے جانبازوں کے جہادی جذبات کے آگے،عالمی حربی قوتیں اور اسکی عالمی معیار حربی انٹیلجنس ایجنسیاں انگشت بندنداں، نہ صرف دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہیں بالکہ پوری عالم یہود و نصاری قوتیں، اپنے تمام تر عالمی حربی داؤ پیچ اور اپنی پینترے بازیوں باوجود، چند ہزار غزہ مجاہدین کے آگے سرنگوں، امن عامہ عہد و پیماں کرنے مجبور ہوجاتی ہیں۔ باوجود ان سب کے عالم یہود کےبمبار طیاروں سے نہتے فلسطینی نساء و بچوں کو شہید کئے، سربراہان یہود،فلسطینی مجاہدین سے اپنی شکشت فاش پر،اپنی پیٹھ تھپتاتے پھریں،

لیکن کل ایک دو سال قبل والے ہمنوا یہود منظر نامے کے خلاف، آج عالم نصاری ممالک میں تک، جانبازان فلسطیں کے قصیدے گائے جانے لگے ہیں۔یہی وہ نہتے جانباز مجاہدین فلسطین کے دلیری کی داستانیں ہیں جو انہیں جابر ظالم نازی یہود و نصاری عالمی قوتوں سے نالان،اقدار اسلام کا شیدائی بناجاتے ہیں۔ کاش کہ آج کی مسلم امہ، جس زبوں حالی کی ہی شکار کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کو قرآنی اقدار روشنی میں، عصری علوم سے بہرور کرتی رہیں تو وہ سلف وصالحیں والے روشن ایام حکومت ادوار ہم مسلم امہ کو، خلافت و حکومت انسانی کے لئے خوش امدید کہتے پائی جائیں۔

اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تیسری صدی ہجری بمطابق 680عیسوی میں مسلم دنیا کے مختلف خطوں میں, اسلامک یونیورسٹیز کھل چکی تهیں. اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی یونیورسٹیز کا جائزہ لیں تو تین بنیادی اسلامی یونیورسٹیز ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش موروکو کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے
اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس تیسری صدی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات, جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابرین کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔

اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے
جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔
232 هجری سال بمطابق 814 عیسوی سال، یورپ والوں کے لئے نوید علم و عرفاں لے آیا جب عرب کی اسلامی حکومتوں نے اپنے یہاں قائم اسلامک یونیورسٹیز کی فرع یعنی برانچز, یورپی ملکوں میں کھولنی شروع کردی تهیں. اٹلی کے سالیرنو میں پہلی، وە بھی اسلامک یونیورسٹی کا توسیع پزیر (ایکسٹینڈیڈ) ورشن کھلا تھا

. پهر ایکے بعد دیگرے ٹالیڈو، سرویللے، اور گرینیڈو میں مسلمانوں نے یونیورسٹیز کھولی تهیں. ابتدا میں چونکہ آدھی سے زائد ترقی پذیر دنیا پر اسلامی حکومت کا تسلط تها اور بقیہ آدھی دنیا پر بھی اسلامی حکومت کے اثرات تهےاورجدت پسندی یا تعلیم یافتگی کو اسلامک حکومت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا . ان اسلامک یونیورسٹیز سے فارغ االتحصیل یعنی گریجویشن کورس مکمل کرنے والے طلبہ کو یوم تقسیم اسناد(کنووکیشن ڈے) اساتذہ و دیگر طلبہ و طلبہ کے اعزہ کے ہجوم کی موجودگی میں اسناد تعلیم (گریجویشن سرٹیفیکٹ) دیتے وقت عرب کلچر کا تفخیریت والا ڈھیلا ڈھالا ثوب یا لمبا کرتا یا چغہ اور عرب عمامہ یا پگڑی پہنائےجاتے تھے
جسے پہننا تعلیم حاصل کرچکے گریجویٹ طلبہ کے لئے،باعث فخر ہوتا تھا. یورپ کے مختلف حصوں سے ان اسلامک یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے والے تعلیم یافتگان گریجویٹ اپنے اپنے ملکوں علاقوں میں، پہنچنے کے بعد،خاص موقعوں پر اپنے گریجویٹ ہونے یا تعلیم یافتہ ہونے کے تشخص کے طور، اس عربی توب یا چغوں کو پہنا کرتے تھے.

اس کے بعد تقریبا آٹھ سو ہزار سال تک تقریبا آدھی دنیا، مختلف اسلامی حکومتوں اور سقوط اسپین تک، سلطنت عثمانیہ کے زیر نگین رہی تهیں. اس لئے مختلف یورپی ممالک میں مختلف یونیورسٹیز کے آزادانہ کھلنے کے باوجود، ابتدائی اسلامک یونیورسٹی کی چھاپ باقی رہی تھیں.آج سقوط اسپین پر چار ایک صد سال گزرنے کے بعد اور خلافت عثمانیہ کے مکمل زوال پزیری بعد، ایک صد گزرنے کے باوجود، پورے عالم کی یونیورسٹیز کا اپنے کنووکیشن ڈے پر تقسیم اسناد والے دن،کوڈ آف کنڈکٹ ایجوکیشن کے تحت، ڈھیلا ڈھالا کالا چغہ اور عمامہ کے بدل ہیٹ ٹائیب ڈریس کوڈ کا پہننا، 1280سال قبل کےاسلامک یونیورسٹیز کے یوم تقسیم اسناد، پہنے جانے والے ڈھیلے ڈھالے عربی ثوب اور عمامہ کی یاد دلاتے ہوئے، خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ،بارہ تیرہ سو سالہ امامت عالم کی یاد دلاتا ہے اور مسلمانوں کے قائد عالم، علم و عرفان ہونے کے ثبوت کے طور فی زمانہ رائج کنووکیشن ڈےڈریس کوڈ پیش کرتے ہوئے، تعلیم علم عصر حاضر کو ترک کرنا، زوال امت مسلمہ کا موجب قرار دیا جاسکتا ہے.
زوال اسپین کے چار صد سال بعد،نیز زوال مغلیہ سلطنت هند کے ڈھائی سو سال بعد، اور زوال خلافت عثمانیہ کے سو سال بعد، جس سرعت سے، والی خلافت عثمانیہ، مملکت ترکیہ اپنے سابقہ مقام توقیریت کی طرف پلٹ رہی ہے.اور هند کی موجودہ هندو حکومت، اپنے مکمل اکثریتی راج کے باوجود جس انارکی و بے چینی کا شکار ہے، حضور پرنور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے، هند کی طرف سے خوشبو کے آنے کا اشارہ، اس بات کا غماز ہے کہ، اپنے رشی منی منو (حضرت نوح علیہ السلام) کی اصلیت جاننے کی مشتاق هندو قوم کو، ہم مسلمین، قرآن مجید کی روشنی میں، هندو قوم پر اتاری گئی
صحف اولی، رگ وید، آتھر ویجر وید کی گرہوں کو، پرت در پرت کھول کھول کر، ہندو بهائیوں میں، دین آسمانی کی دعوت، دین اسلام کا کام،مخلصانہ کیا کریں گے

تو، یقینا اسلامی پندرهویں صد کے اختتام تک،یعنی اکیسویں عیسوی صد کے اختتام سے پہلے، پوری ہندو قوم کے اپنے دین اصل، دین منو کہ دین حضرت نوح علیہ السلام یاکہ دین محمدی ﷺ پر پلٹ آتے ہوئے،هند وترک اقوام کے منصب امامت عالم کی دعویداری، ایک سراب مانند خواب نہیں، حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے
اس کے لئے صاحبان علم و عرفان مسلمین کو چاہئیے کہ، زوال امت مسلمہ کا اصل سبب،علوم دینیہ اور علوم عصر حاضر میں، یہود و نصاری کے پیدا کئے تفاوت و فرق کو ختم کر، “اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الإنسان من علق”، ( پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے تمہیں (انسان کو پیدا کیا خون کے لوتهڑے سے) والی پہلی آسمانی ہدایت پر، قرآن مجید کی روشنی میں، علم ارض و سماوات کہ بحر و بر کہ جبل و جنگل و بیابان کہ علوم ماہ وانجم پر تدبر کر، علوم عصر حاضر کو، اپنے زیر نگین بنائیں اور پھر وعدے خداوندی کے عین مصداق، اپنے آگے سرنگوں، امامت عالم پر شوق سے حکمرانی کریں .وما علینا الی البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں