مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 18

عوام سے مہنگائی میں کمی کا مذاق !

عوام سے مہنگائی میں کمی کا مذاق !

اس حکومت کے وزیر اعظم سے لے کر وزرا تک ،سارے ہی تکرار کے ساتھ مہنگائی میں کمی کے اعلانات کر کے نہ صرف اپنی ”فتح کے شادیانے‘‘ بجا رہے ہیں، بلکہ ملک میں افراط زر میں کمی کو بھی اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کررہے ہیں، اس پر عوام کا ایک ہی سوال ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات ان تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟

اس کا حکمرانوں کے پاس سوال چنا ،جواب گندم کے مصداق ہے،حکومت کے سارے دعوؤں کے باوجود مہنگائی میں کمی آ رہی ہے نہ ہی عوام کو مہنگائی سے نجات ملتی نظر آرہی ہے، بلکہ، روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیںاور متوسط ،غریب طبقے کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔
ملک بھر میں حکمرانوں کے دعوئوں کے برعکس مہنگائی میں شب روز اضافہ ہی ہورہا ہے،جبکہ حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کو اپنی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، اس خوش فہمی کی زمینی حقائق بھی تردید کرتے ہیں، اگر چہ وفاقی اعداد و شمار کے مطابق کچھ اشیاء کی قیمتوں میں معمولی کمی ہوئی ہے،

جیسا کہ زندہ مرغی، آٹا، پیاز اور ٹماٹر، لیکن اس فہرست سے ہٹ کر بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے، آلو، انڈے، نمک، گڑ، دالیں، دہی، تک مہنگی ہو چکی ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ جن اشیاء کا روزمرہ کی زندگی سے براہ راست تعلق ہے، وہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں، اصل مسئلہ صرف اشیاء کی قیمتوں کا نہیں، بلکہ ان اشیاء تک رسائی کا بھی ہے، جو کہ نہیں ہو پارہی ہے اور انظامیہ کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
اگر دیکھا جائے

توآج ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل ہو گیا ہے، گھریلو اخراجات کی دلدل میں دھنسے ہوئے والدین بچوں کو اسکول بھیجنے سے قاصر ہیں، بیماروں کے لیے دوا، بچوں کے لیے تعلیم اور عام آدمی کے لیے سکون، بنیادی ضرورت سب کچھ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ، سرکاری دعووں اور گراف میں کمی ضرور دکھائی جارہی ہے، مگر اس کے بر عکس گلی محلوں میں بسنے والے افراد کی زندگی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے

کہ ’’مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے‘‘،اس وقت روزمرہ کی پریشانیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ کچھ لوگ شدید مجبوری میں خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں، جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے لمحہ فکر ہے،لیکن حکو مت اعداوشمار سے ہی بہلانے میں لگی ہوئے ہے۔
اس وقت حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے سوا دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، یہ کچھ معاشی اشاریوں میں بہتری دکھانا سیاسی ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں ہے، لیکن اگر یہ بہتری عوام کی زندگی میں آسانی پیدا نہیں کر رہی تو ایسے اعداد و شمار محض کاغذی تسلی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، اس حکو مت کی جانب سے جب تک اپنی پالیسیوں کا رخ عام شہری کی حالت ِ زار کی جانب نہیں موڑا جاتا ہے،

حکو مت کے مہنگائی میں کمی لانے کے ایسے دعوے غیر مؤثر ہی رہیں گے، حکومت کو چاہیے کہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو صرف اعداد وشمار کی حد تک نہیں، بلکہ بازار کی سطح پر مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرے، اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بڑھانے، تعلیمی اخراجات کم کرنے اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بھی عملی اقدامات کئے جائیں، جو کہ نہیں کیے جارہے ہیں،

حکو مت کا نمائشی اعلانات اور اقدامات پر ہی زیادہ زور ہے ، جبکہ ان اعلانات و ادامات کی عملی شکل کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔اس ملک کا عام شہری حکو مت سے صرف مہنگائی میںریلیف مانگ رہا ہے اور حکو مت عوام کو مہنگائی میں رلیف دینے کے بجائے مہنگائی میں کمی لانے کا مذاق کررہی ہے، حکومت کو مہنگائی میں کمی لانے کیلئے خالی زبانی کلامی دعوئوں کے بجائے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے،

آسمان سے چھوتی مہنگائی عام آدمی کے لیے بے پناہ مشکلات کا باعث ہے، جبکہ یہ صورت حال معاشرے کے تمام شعبوں سے فوری توجہ اور ٹھوس کوششوں کی متقاضی ہے ،حقیقی معاشی استحکام قرضوں سے آئے گا نہ ہی بیرونی امداد سے حاصل کیا جاسکتا ہے ، اس کے لیے سیاسی و ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے ایک متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ،اقتصادی چیلنجز سے مل کر نبرد آزما ہونے کیلئے سویلین اور عسکری قیادتوں کی جانب سے حالیہ عزم کا اعادہ ایک مثبت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے ،

چونکہ پاکستان معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے، اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کریں،پا کستان ٹھوس اقدام اور ایک نئے عزم کے ساتھ ہی موجودہ معاشی چیلنجوں سے مضبوطی سے نہ صرف نکل سکتا ہے ، بلکہ اپنے عوام کی زند گی بھی بدل سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں