مسلم تنظیموں کا احیاء نؤ، کیا وقت کی ضرورت نہیں ہے؟
نقاش نائطی
۔ +919448000010
بہت چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح، ہم مسلمانوں میں آگہی و بیداری مشن پر عمل پیرا، مصروف عمل، اپنے کم مطالعہ اور کج ذہنی کی وجہ، مولانا تقی احمد ندوی کو، ہم نہیں جانتے۔ لیکن آج انکی اس تحریر نے”سمندر کو کوزے میں بند” جیسے انکی تحریر کو، اپنے افکار کے پیرائے میں پایا ہے۔ یہی بات جو ندوی عالم دین نے کہی ہے ہم جیسا کوئی کہنے کی جرآت کرتا تو پتہ نہیں، نام نہاد ٹھیکے داران دین اسلام کے رنگروٹوں کی طرف سے ہم پر، کالج کا لونڈا دین اسلام کے بارے میں کیوں اور کیسے، تبصرہ کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟
جیسے مختلف العنوان، طنز و طعن سے بھرپور، ہمیں بے وقعت کرنے کی کوشش ہوتی۔ سابقہ ادوار میں ہمیں لادین، داڑھی مونچھ صاف، دنیوی معاملات کا اچھا تبصرہ نگار، مگر دین کے معاملات میں حق گوئی سے ماورائیت اختیار کرنے کے، دھمکی آمیز مشورے بھی دئیے جاتے رہے ہیں۔ ہماری تحریروں میں، بعض امور پر شہادتیں مانگتےہوئے، لفظی غلطیوں پر اشارہ کر،ہمیں خجل وسراسیمہ کزنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں، لیکن ہم نے اس مفہوم حدیث کے مطابق کہ “اللہ اپنے بندوں سے، اسے ودیعت کردہ صلاحیت مطابق ہی، عمل کا سوال روز محشر کریگا” ہم اپنی تحریر نویسی کی محدود صلاحیت علمی سے، اپنے مشن آگہی پر ڈٹے رہے ہیں۔
اور الحمد للہ زمانہ تلمیذی سے آج عمر ڈھلتے اس گام تک، اس فکر کے ساتھ کہ یہی ہمارا آگہی مشن، ہمارے خاتمہ بالخیر ہونے کا سبب بنتے ہوئے ،بعد الموت ہمارے عالم برزخ و محشر امتحان میں سرخروئی کا سبب بنتے ہوئے، ہمیں مستحق جنت نشینی قرار دیگا،ہم سابقہ چار دہایوں سے، اپنے “مشن آگہی تحریر” لگے رہےہیں۔ آپنے قارئین سے یہی التماس ہے کہ اظہار حق گوئی میں، ہم سے ہوئی نادانستہ لغزشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہمارے خاتمہ بالخیر ہونے کی ہمارے لئے دعا ضرور کریں۔
دراصل جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، ہم نے مختلف مرکزی مسلم بزموں کو، ایک آدھ جگہ خانہ پری کے علاوہ، اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کو ہی، ان بزموں میں بھرتے ہوئے پایا ہے۔
غالبا 1984 کے بعد جب شاہ بانو مقدمے میں بھارت کی عدلیہ کے تاریخ ساز دئیے فیصلہ کو، دستور العمل الھند میں تفویض کردہ مسلم پرسنل لاءمیں مداخلت قرار دئیے، ان ایام حضرت مولانا مرحوم ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی صدارت میں، آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے، جس بہتر انداز پورے بھارت کے مسلمانوں میں، دین بیداری پیداکرتے ہوئے، اس وقت کے پی ایم راجیو گاندھی والے آل انڈیا کانگریس پر دباؤ برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش تھی
کہ اس پر کانگریس کو پارلیمنٹ میں تاریخ ساز عدلیہ کے، شاہ بانو فیصلہ پر روک لگانی پڑی تھی یہ اور بات ہے کہ مسلمانوں کے حق میں اٹھائے گئے کانگریس کے اس اقدام سے، اورتنگ نظر مسلم دشمنوں کےدباؤ نجات کیلئے، مسلم نوازی کے حملوں سے بچنے، اس کے بعد منعقد پزیر عوامی انتخاب سے پہلے، بابری مسجد پر سے لگے ٹالے کو آلہ باد ہائی کورٹ کےذریعہ سے کھولتے ہوئے،
چالیس سالہ رام جنم بھومی دیوھیکل جن کو، راجیو گاندھی کا آزاد کرواتا عمل بعد میں، ہم مسلمانوں ہی پر کچھ ایسابھاری پڑا کہ ہماری پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد سے، نہ صرف ہمیں ہاتھ دھونا پڑا، بلکہ اسکے تیس پینتیس سال بعد، مسلمانوں کی کئی صد سالہ بابری مسجد اؤقاف زمین کو، عدلیہ کی طرف سے، قاتل بابری مسجد ہی کے حوالے کرتے ہوئے، تا قیامت مسجد والی جگہ پر، اللہ کی ذات میں شرک کرتے اور شرک پھیلاتے شاندار رام جنم بھومی مندر کو بنتے دیکھتے، خون کے گھونٹ پیتے برداشت کرنا پڑا ہے۔
اس واقعہ شاہ بانو بعد، بھارتیہ سیاسی گلیاروں میں مسلم دشمن سنگھیوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کے سامنے، بھارت کے سب سے متبرک اعلی مسلم قیادت باوجود، ان 50 سالوں میں مسلم قیادت، صرف تبرکاتی ادارے میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ایسے میں کیا یہ ضروری ہے بھارت کے سب سے متبرک شخصیت ہی کو بطور نمائشی شئی، مسلم پرسنل بورڈ کے عہدہ تمکنت پر برقرار رکھتے ہوئے، کچھ حنفی مقلدین کی جمعیت کو، مسلم پرسنل لاء بورڈ پر اصلی حکمرانی قائم کئے، اپنے متنازع فیہ مسلکی فیصلوں سے، بھارتیہ مسلمانوں کے سب سے باوقار بزم، مسلم پرسنل بورڈ کا وقار مجروح کرنے کےاسباب پیدا کئے جائیں؟
کیا ہم بھول جائیں، مسلم دشمن اس سنگھی مودی حکومت کے مسلم پرسنل میں مداخلت کرتے، اپنی جوڑ توڑ سیاسی پینترے بازیوں سے، تین طلاق مسودہ قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کرتے ہوئے، مسلم پرسنل بورڈ کو بے وقعت کرکے رکھ دئیے جانے والے تاریخ ساز فیصلے سے قبل، دیش کی عدلیہ نے،مسلم پرسنل بورڈ سے تین طلاق موضوع پر کیارائے نہیں مانگی تھی؟ اسلامی شریعت میں یک محفل دئیے جانے والے تین طلاق کو، ایک ہی مانتے، علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کے معرکہ الاراء فیصلے مطابق اہل سلف،اہل حدیث سمیت، مسلمانوں کے ایک کثیر طبقہ کے عمل کرتے فیصلہ کے حق میں، مسلم پرسنل بورڈ کا فیصلہ صادر کرنے کے بجائے، مقلدین مسلم امہ کے تین طلاق کو، تین ہی ماننے کی ضد پر اڑے رہتے،
مسلم دشمن پارلیمنٹ میں اکثریت والی اس سنگھی مودی حکومت کو، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت والے، تین طلاق مسودہ قانون کو پاس کرواتے، مسلم پرسنل بورڈ کے وقار کو مجروح کروانے کا موقع، اس سنگھی مودی حکومت کو، کس نے دیا تھا؟ اور اس وقت مسلم پرسنل بورڈ کے ذمہ دار 80 کے دہے والی اپنی طاقت و جرات کو درشاتےثابت قدم ڈٹےرہتے اور، کانگریس سمیت بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہی ساتھ دیگر چھوٹی سیکیولر پارٹیوں سے ملاقاتیں کرتے،
ان پر دباؤ برقرار رکھتے کامیاب ہوتے تو، بی جے پی اکثریت والی پارلیمنٹ لوک سبھا میں تین طلاق مسودہ قانون پاس کروانے کے باوجود، اپوزیش اکثریت والی راجیہ سبھا میں مسلم دشمن تین طلاق مسودہ قانون کو، قانون بھارت بننے سے روکا جاسکتا تھا۔ ایسے پریشان حال دور میں، ایسی مجرمانہ غفلت کے ذمہ داران مسلم پرسنل بورڈ کون ہیں؟ ان پر سرزنش کی گاز اب تک گرائے جانے کے بجائے اسی بورڈ کو جوں کا توں برقرار کیوں رکھا گیا ہے؟ اور تو اور بھارت کے مختلف حصوں سے ان بزرگ قائدین علماء کی تعریف میں مقالہ و کتابچے لکھنے والے یا اپنی طبع شدہ تصانیف کااجراء ان بابرکت شخصیات کے ہاتھوں کروانے کا اہتمام کرنے والے، ایسے ویسے مقلدین عملاء ہی، مسلم پرسنل لاء بورڈ رکن رکیں بنائے جانے کے کیا اہل ہیں؟
کیا پورے بھارت کے تیس کروڑ مسلم عوام میں ،چند پشتینی اراکین کے علاوہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن رکین بننے لائق مقلد ندوی یا قاسمی علماء کے علاوہ اور کوئی عصری تعلیم یافتہ شخصیات کیا دستیاب نہیں ہیں؟ عوامی مسائل پر عام مسلمانوں کی آراء کا احترام کرنا، مسلم پرسنل بورڈ کے لئے کیا ضروری نہیں ہے؟ یہ اسلئے کہ جب دیش کی عدلیہ نے مسلم پرسنل بورڈ سے تین طلاق پر، ان سے اسلامی رائے طلب کی تھی تو باوجود ہم جیسے بیسیوں لوگوں کے، ذمہ داران مسلم پرسنل لاء بورڈ تک ابن تیمیہ والے موقف کو اپنانے، بصورت دیگر تین طلاق متجوزہ آرڈیننس کے لئے ذہنی طور تیار رہنےکی مکرر درخواست باوجود،مقلدین والے تین طلاق کے راجح ہونے پر بضد کیوں رہا گیا؟ اس وقت ابن تیمیہ والاموقف صحیح نہ تھا
تو سنگھی تین طلاق آرڈیننس کے بعد وہی ابن تیمیہ والاتین طلاق موقف کو ایک طلاق تسلیم کرنے والا موقف کیوں اختیار کیا گیا؟مولانا تقی احمد ندوی کی آراء سے ہم بھارتیہ مسلمان پوری طرح متفق ہیں کہ صاحبان حل و عقل شباب کےجوان سال کندھوں پر عظیم ذمہ داری لادتےہوئے، لائق تکریم و تعظیم علماء کی سرپرستی میں، نوجوان نسل کے ہاتھوں مسلم پرسنل بورڈ کی کمان دیتے ہوئے، مناسب رہنمائی میں ان کی تربیت و تدریب کی جائے،
تاکہ مستقبل قریب میں، سرزمین بھارت پر گہن زد ہونے والے ممکنہ منافرت آمیز ماحول میں بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوں کے بکھرے شیرازے کو منتشر ہونے سے روکا جا سکے اور مسلم امہ کو ایک سیسہ پلائی دیوار کے طور، اس سنگھی سونامی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کی جائے، ایسے موقع پر دو ایک دہے قبل، ملی کونسل سے منسلک المحترم مرحوم مفتی مجاھد الاسلام علیہ الرحمہ کی یاد آتی ہے اللہ انہیں غریق رحمت کرے
اور جنت میں ان کے لئے اعلی مقام کو محجوز رکھے، کہ وہ کس قدر تندہی سے ملک گیر سطح پر دورے کرتے ہوئے، اس وقت کے “چمکتے بھارت” شائیننگ انڈیا، سنگھی طوفان کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھارت کے طول و عرض کے مسلمانوں کو انتخابی ہدایات سے رہنمائی کرتے پائے جاتے تھے۔ کاش کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی، آپسی ہمنوائی کرتے ممبران کی کھیپ بنانے کی فکر سے مبراء، مسلمان ھند کی صحیح معنوں ترجمانی و رہنمائی کرتا ادارہ ثابت ہو۔
وما علینا الا البلاغ
یہ مضموں 25 جون 2019 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں، پاس شدہ ترپل طلاق آرڈیننس بعد لکھا اور بعض ویب پورٹل پر پوسٹ بھی ہوچکا تھا لیکن 4 اپریل 2025 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں، سرعت و سازشانہ انداز پاس شدہ اور صدر مملکت کے دستخط کے ساتھ قانون بنایا گیا، اوقاف ترمیم ایکٹ، منظر عام آنے کے بعد، بھارت کے طول ارض میں، مسلم پرسنل لا بورڈ کی سرپرستی میں بھارت گیر پیمانہ پر، دیش کے مسلمانوں کی سب سے بڑی اقلیت ہم300 ملین مسلمانوں کی طرف سے، جو سنگھی حکومتی قانون بنائے گئے اوقاف ترمیم ایکٹ کے خلاف اجتماعی تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس سے لگتا تھا
کہ بھارت کے ہم 300 ملین مسلمان، اپنے ملک گیر موقر ادارے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ماتحت، 1984 کانگریس حکومت کے پاس کردہ شاہ بانو کیس آرڈیننس کو واپس لینے مجبور کئے جیسا، اس سنگھی مودی حکومت کے ترتیب دئیے اوقاف ترمیم بل کو بھی، اپنے متحدانہ احتجاج سے واپس لینے مجبور کردیں گے۔ لیکن عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت پر اپنے مکر و فن کے ساتھ عالم کی سب سے بڑی کیڈر بیس ھندو مذہبی پارٹی آرایس ایس، عوامی ترقیات کے بہانے عوام ہی کو لوٹ کھسوٹ کئے،انہیں مہنگائی بے روزگاری کی موت مارے،اپنے مکرو وفن سے،ان پر کامیاب حکومت کرنے والے سنگھی رہنما، اتنے زیرک اورچالاک ہیں
کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ حکومت مخالف عوامی رجحان و مخالفت کو، کس پینترے بازیوں سے، اپنے حق میں کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر 1400 ملین بھارت واسیوں کے ساتھ کئی ہزار عالم کی انسانیت نے دیکھا کہ کس طرح بھارت کی پچاس فیصد سے زائد افواج چھوٹے سے کشمیر خطے میں تعینات کئے جانے کے باوجود، بقول دیش پر منافرتی کامیاب حکومت کرتے سنگھی حکمرانوں کی مانیں تو،پڑوسی پاکستانی افواج کی مدد و نصرت سے، مٹھی بھر بھارت مخالف دہشت گرد،نصف سے زاید بھارتیہ 7 لاکھ افواج کی مضبوط صفحوں کو چیر کر، ھند و پاکستان بارڈر سے کئی کئی سو کلومیٹر دور بھارت کی دھرتی پر، پاکستانی دہشت گرد دندناتے سرزمین ھند آتے ہیں اور بے قصور بھارتیہ کشمیری یاتریوں کو انکا مذہب پوچھ پوچھ فقط ھندوؤں کو، اپنی گولیوں سے بھون،انہیں ہلاک کئے،
بہ آسانی بھارتیہ افواج کی نظروں میں دھول جھونکے، نو دو گیارہ بھی ہوجاتے ہیں۔یہ کہانی اگر ھندی فلم میں بھی فلمائی جاتی تو بولی ووڈ فلم انڈسٹری کو، آسمان پر چڑھا، اسے زندہ جاوید رکھنے والے،ھندی فلم درشک بھی،بھارتیہ افواج کی آنکھوں میں پاکستانی دہشت گردوں کے دھول جھونکنے والی فلم کہانی کو رد کردیں۔لیکن افسوس ہوتا ہے بھارتیہ گودی میڈیا، اپنے 24/7 مکرر نشریات سے، چھوٹے سے کشمیر حصہ کی حفاظت پر معمور، پچاس فیصد سے زائد بھارتیہ افواج کو مٹھی بھر پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں چونا لگائے،
ان کی چھاتیوں پر مونگ دلتے، پانچ ساتھ لاکھ بھارتیہ افواج کی صفحوں کو چیر کر،سرزمین بھارت گھس آتے، بھارتیہ بے قصور ھندو یاتریوں کو ھلاک کرتی، سنگھی حکومتی اسکپرٹ، بے وقوفانہ کہانی پر، پڑھی لکھی اعلی تعلیم یافتہ سنگھی ذہنیت کروڑوں دیش واسیوں کو، نہ صرف یقین آجاتا ہے بالکہ وہ چند پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں، انکی دھرتی میں گھس آ بھارتیہ ھندوؤں کو ہلاک کئے جانے پر بھی، کروڑوں ھندوؤں کے ویر سمراٹ مہان مودی امیت شاہ کو، انکی ارمی انٹیلجنس ناکامی پر سوال کرنے کی ہمت جٹا نہیں پاتے ہیں
۔کیا واقعی پہلگام بھارتیہ ھندو یاتریوں کو، انکا دھرم پوچھ پوچھ، انہیں ہلاک کرنے والے، دہشت گرد کئی سو کلیومیٹر دور پاکستان سے بھارت آئے تھے یا گجرات سنگھی مودی حکومت دوران اور اب اس 12 سالہ بھارت پر مودی امیت شاہ سنگھی حکومت دوران، 2019 خود ساختہ پھلوامہ دہشت گردانہ حملہ میں 40 ویر بھارتیہ افواج کو ہلاک کئے جیسے، متعدد خود ساختہ فالس فلیک آپریشن طرز، بھارت میں اوقاف ترمیم قانون کے خلاف 1300 ملیں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کئے، لاکھوں کروڑ کی مسلم اوقاف املاک کو قبضہ کرتی سنگھی سازش کا حصہ ہے
پہلگام ٹیورسٹ حملہ؟ یا کیا بھارت پر ھندتوادی رام راجیہ قائم کرنے کی دعویدار سنگھی مودی یوگی امیت شاہ ،صدا گؤماتا پریم کا راپ الاپتے، گؤماتا بچھڑوں کے ساتھ فوٹو کھینچواتے، گؤ ماتا ساموہک ہتھیا سے ویدک بھارت کو عالم کا سب سے بڑا گؤماس ایکسپورٹر ملک بنائے جیسا،کیا صدا پاکستان دشمنی کا راگ الاپنے والے یہ سنگھی حکمران، ان کی خراب معشیتی پالیسئز سے ملکی و عالمی سطح انکی خراب ہوتی ڈگرگوں حالت میں، بوقت ضرورت انہیں دیش بھگتی شکتی والی سنجیونی کھلا،اپنےداخلی مخالفیں کو زیر کرنے، کیا
پاکستانی دہشت گرد کام آتے ہیں،جو تڑی پار ہوم منسٹر کی چھتر چھایہ میں، آسانی سے دیش کی سرحدوں میں گھس آ، ممبی 26/9 سمیت، پہلوامہ، پہلگام دہشت گردانہ حملوں میں بھارتیہ افواج و کشمیری سیاحیوں کو ہلاک کئے، آسانی کے ساتھ واپس بارڈر کراس کر چلے بھی جاتے ہیں۔ آخر کیوں جس پہلوامہ دہشت گردانہ حملوں کی آڑ میں، بادلوں کی اوٹ میں چھپے، دشمن ملک راڈار سے اپنے آپ کو بچائے، اپنے سرجیکل اسٹرائیک سے پڑوسی ملک کوئے کو مار آتے، پہلوامہ دہشت گردانہ حملے میں ویر گتی پانے والے فوجی جوانوں کے پارتو شریر کے واسطے سے 2019 عام انتخاب جیتنے والے سنگھی حکمراں مودی امیت شاہ، پارلیمنٹ میں اپنی مکمل اکثریت باوجود، پہلوامہ دہشت گردانہ حملہ پر تحقیقاتی قرطاس ابیض بھارت واسیوں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر کیوں ہیں؟ کیا اس پر تحقیقات نہیں ہوگی؟
خیر یہ کروڑوں بھارتیہ سناتن دھرمی ھندؤں کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ 2014 سے پہلے والے سب سے تیز رفتار، ترقی پزیر سونےکی چڑیا بھارت کو، “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” اور ” اچھے دن آنے والے ہیں”جیسے دل خوش کن نعروں کے ساتھ،بھارت پر قبضہ کئے، اپنے 12 سالہ نام نہاد سنگھی ھندو رام راجیہ میں، اپنے ناعاقبت اندیشانہ نوٹ بندی، نفاذ جی ایس ٹی، اور کورونا کال بغیر اطلاع لاک ڈاؤن فیصلوں کے ساتھ، تھالی تالی بجوا دیش واسیوں کو بے وقوف بنا، اپنے مہنگائی، بے روزگاری سے ماری کروڑوں جنتا کو، مسلم منافرت میں سرشار کئے،
ہزاروں سالہ مختلف المذہبی سیکیولر دستوری ملک چمنستان بھارت کو مذہبی منافرت میں بھڑائے، اور آپنے ایڈی انکم ٹیکس یلغار سے، منتخب اراکین کو بلیک میل کئے، انہیں اپنے مکر وفریب سازش سے مجبور کئے، اپنے رام راجیہ کو 1400 ملین سیکیولر ذہن لوگوں پر زبردستی نافذ کرنے والے سنگھی منافرتی لیڈروں کو، سناتن دھرمی عوام کب تک برداشت کرتے ہیں، نام نہاد مہاویر سمراٹ خود ساختہ وشؤ گرو، ان ھجڑوں کی سرداری کو کب تک دیش واسی برداشت کرتے ہیں
یہ دیکھنا اب باقی ہے۔ لیکن ہم 1300 ملین بھارتیہ مسلمانوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ 4 اپریل 2025 دیش میں سازشانہ قانون بنائے گئے اوقاف ترمیم بل کے خلاف، ہم دیش واسی مسلمان، اپنے مسلم پرسنل بورڈ کی سرپرستی میں، دیش بھر میں، جو ایک لامتناہی احتجاج شروع کرچکے تھے۔
مجبور دیکھتے رہ جانے ہمیں پھر ایک مرتبہ کیا چھوڑ دیا جائیگا؟ یہ سوال ان نام نہاد پشتینی رکنی ملکیت والے، اپنے ہی مکتب فکر، ایک ہی علاقے والے کئی کئی افراد پر مشتمل اراکیں کو منتخب کئے، مسلم پرسنل لاء بورڈ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اب 22 اپریل پہلگام خود ساختہ دہشت گردانہ حملہ بعد، اوقاف ترمیم بل پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سرپرستی میں شروع کیا گیا، دیش بھر اوقاف مخالف احتجاج کا کیا ہوگا؟ وما التوفئق الا باللہ