پاکستان میں ملازمین بیت الخلا جانے پر نوکری سے فارغ ہونے لگے
پاکستان میں کپڑوں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مرد و خواتین کو لیبر کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بدھ 23 جنوری کو اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ اگر کوئی ملازم اپنے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے بیت الخلا جانے کا بھی پوچھ لے تو نوکری سے فارغ سمجھا جاتا ہے۔
مزدوروں کے حقوق سے متعلق ہونے والی ناانصافیوں پر ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کپڑوں کی فیکٹریوں میں کام سے متعلق خراب صورتحال پر تفصیل سے لکھا گیا ہے جس میں 42 لاکھ افراد ملازمت کرتے ہیں جس کی تعداد کسی بھی شعبے میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک حد فیکٹری کے ملازموں کی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور ان کی حالت زار ملک کی حکمران اشرافیہ کے سیاسی ایجنڈے سے دور رہتی ہے۔
رپورٹ میں کراچی، لاہور اور حافظ آباد میں 24 فیکٹریوں سے 140 لوگوں کے سروے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ملازمین میں سے بیشتر خواتین نے بتایا ہے کہ ان کے ساتھ بدزبانی کی جاتی ہے اور دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ بیت الخلا نہ جائیں، یہاں تک کہ صاف پانی پینے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔
کراچی میں گھریلو برانڈ کی مینوفیکچرنگ کی سہولیات تیار کرنے والی فیکٹری کے ایک ملازم نے بتایا کہ اوور ٹائم کام نہ کرنے کی وجہ سے مجھے گزشتہ اتوار نوکری سے نکال دیا گیا۔ پیر کے روز جب میں کام پر گیا تو گیٹ پر موجود سیکیورٹی گارڈ کے پاس میرا نام موجود تھا اور اس نے بتایا کہ میں اندر نہیں جا سکتا۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیم کے پاس دو فیکٹریوں میں مینیجرز کی جانب سے ملازمین کو مارنے سے متعلق دستاویزات بھی موجود ہیں۔
سروے کے نتائج سے یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ فیکٹری مالکان اپنے ملازمین سے توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں جبکہ مختص کی گئی کم از کم اجرت اور پینشن بھی ادا نہیں کرتے۔ یہ فیکٹریاں ملازمین سے زبردستی اوور ٹائم کام کرواتی ہیں جبکہ کام کے دوران مناسب وقفہ بھی نہیں دیا جاتا۔ اس کے ساتھ بیماری پر دی جانے والی چھٹیاں اور پیڈ میٹرنٹی کے قوانین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزدوروں کے حقوق کےلئے آواز اٹھانے والی لیبر یونینز کےخلاف بھی کارروائی کی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی گارمنٹ کے ملازمین ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سنگین شکایات کا اظہار کر چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2018 میں کپڑوں کی فیکٹریوں کے ملازمین نے لاہور میں پاکستان کے ایک بڑے برانڈ کے تحت چلنے والے ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے باہر مظاہرہ کیا اور کہا کہ حکومتی مراعات پروگرام نہ ملنے سے ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ملازمین کا الزام تھا کہ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ نے اپنے ادارے کو فیکٹری کی طرح چلایا اور ٹرینیز سے مفت مزدوری کروائی۔ دسمبر 2017 میں ایک معروف پاکستانی ملبوسات کی برانڈ کھاڈی کےخلاف بھی ملازمین نے مظاہرے کیے تھے۔ کمپنی سے نکالے گئے 32 ملازمین کا مطالبہ تھا کہ انہیں پاکستانی قوانین کے مطابق حقوق دیے جائیں۔
ستمبر 2012 کراچی میں علی انٹرپرائزز گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث 255 ملازمین جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ تحقیقات میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ فیکٹری میں آگ اور حفاظت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ زندہ بچنے والوں نے اطلاع دی تھی کہ انتظامیہ نے ملازمین کو بچانے کےلئے کوئی فوری اقدامات نہیں کیے بلکہ سب سے پہلے اپنے سامان کو بچانے کی کوشش کی۔
یہاں تک کہ اس سانحہ کے بعد بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور قومی سطح پر بھی مزدوروں کے حقوق پر اتفاق رائے نہیں کیا گیا۔
حکومت کے لیبر انسپیکشن سسٹم میں مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حکومت ایسے قوانین کو نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے جو لاکھوں ملازمین کو لیبر کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بچا سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام کو لیبر انسپکشنز میں بہتری لانی چاہیئے اور خلاف ورزی کرنے والی فیکٹریوں کا منظم طور پر احتساب کرنا چاہیئے۔
ہیومن رائٹس واچ میں ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کی حکومت نے طویل عرصہ سے گارمنٹ ملازمین کے حقوق کی حفاظت کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو چاہیئے ملک میں لیبر قوانین کو جلد نافذ کروائیں اور ملازمین کی حفاظت کےلئے نئی پالیسی لے کر آئیں‘