پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو کہ تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے،ڈاکٹرمنیر
پانی کی ذخیرہ اندوزی کے پائیدار نظام کی بدولت موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹا جا سکتاہے۔ڈاکٹر منیر احمد، چیئر مین، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل، اسلام آباد
پانی کی کمی کے مسائل پر توجہ دینے سے ملکی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے،ڈاکٹر منیر احمد
اسلام آباد ( فائزہ شاہ کاظمی ) پاکستان کے سب سے اہم قدرتی ذرائع پانی اور زمین ہے اور حکومت پاکستان ان عوامل کی مدد سے بہتر اور محفوظ خوراک کے حصول کے لیے ہر لمحہ کوشا ں ہے۔پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر منیر احمد ، چیئرمین، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے “جنوبی ایشیاء میں پانی کے پائیدار انتظام” کے حوالے سے ہونے والی تقریب کے افتتاحی سیشن کے موقع پر کیا۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد پاکستان، سری لنکا اور نیپال میں موسمی تغیرات کے پیش نظر آبپاشی کے نئے طریقوں کو اپنانا تھا۔ چیئرمین، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے کہا کہ اس ورکشاپ کے توسط سے پاکستان ،سری لنکا اور نیپال کے کاشتکاروں کے لیے آبپاشی کے نئے طریقوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوا ہے۔ جس سے فصلات کی پیداوار میں بہتری کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کے پیشِ نظر آپباشی کی جا سکے گی۔ انہوں نے نیپال اور سری لنکا سے آنے والے ماہرین کا بھی شکریہ ادا کیا اور اس منصوبہ کے لیے جاپان کی جانب سے کی جانے والی امداد کو بھی سراہا۔
چیئرمین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل، ڈاکٹرمنیر احمد نے کہا کہ پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو کہ تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں موسمی تغیرات، پانی کے انتظامی اُمور میں کمی، آبادی میں اضافہ اور دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی اہم ہیں۔ اس لیے پانی کی کمی کے مسائل پر توجہ دینے سے ملکی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ملک کا اہم زرعی ادارہ ہونے کے ناطے سے پانی کے استعمال اور آبپاشی کے لیے نئے طریقوں کے استعمال سے بخوبی با خبر ہے اورنئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ادارہ برائے موسمیاتی تبدیلی ، توانائی نے پانی کے بہتر استعمال اور آبپاشی کی نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کر رہا ہے تا کہ اس مقصد کے لیے انسانی وسائل کی ترقی ممکن ہو سکے تا کہ پانی کو استعمال کرنے کی نئی ٹیکنالوجیز کو زیر استعمال لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ جنوبی ایشیا میں پانی کے بہتراستعمال کے حوالے سے طے پانے والے منصوبہ جات کا ایک نمونہ ہے۔
ڈاکٹر غلام محمد علی، ڈائریکٹر جنرل، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز نے اس موقع پر کہا کہ موسمی تغیرات پانی کے وسائل اور استعمال کے طریق کار پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی اے آر سی نے بارش والے علاقوں میں بارش کے پانی سے کاشتکاری کے طریقے کو متعارف کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیپال اور سری لنکا سمیت تمام ریجنل ممالک کی پانی کے استعمال کے حوالے سے کی جانے والی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کا کم ہونا ایک علاقائی مسئلہ ہے جس سے مل کر نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے جس کے لئے ضروری ہے علاقائی ممالک باہم مل کر اس مسئلہ کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط روابط قائم کریں ۔
ڈاکٹر غنی اکبر، پراجیکٹ لیڈر، (سی ای ڈبلیو آر آئی)، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز نے پراجیکٹ کے مقاصد اور اس سے حاصل شدہ نتائج کے بارے میں تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ جب کہ اس موقع پر نیپال اور سری لنکاسے آئے معزز مہمانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پراجیکٹ کے مقاصد و نتائج پر روشنی ڈالی۔نیپال اور سری لنکا سے آنے والے معزز مہمانوں میں سیوا لمسال، سفیر نیپال، نورالدین محمد، سری لنکا، مدن لال شریستھا، نیپال اور ڈی سلوا، زرعی ڈیپارٹمنٹ، سری لنکا شامل تھے