پاکستانیوں کی مُحسن، ڈاکٹر رتھ فاؤ
8 مارچ 1960 کی گرم سہ پہر اطالوی ائیرلائن ’الیطالیہ‘ کی فلائٹ کراچی ائیرپورٹ پر اتری اور اس میں سے فرانس سے آنے والے متعدد سفید فام یورپی شہری باہر نکلنا شروع ہوئے۔ ان لوگوں میں ایک 30 سالہ جرمن نژاد خاتون رتھ فاؤ بھی تھیں۔
اس وقت جب پاکستان میں کوڑھ کے مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور اپنے سگے رشتہ دار بھی مریض کو مرنے کے لئے تنہا کسی مقام پر چھوڑ آتے تو جرمنی سے پاکستان آنے والی اس خاتون ڈاکٹر نے نہ صرف مسیحائی کا فرض ادا کیا بلکہ اس مرض کے پاکستان سے خاتمے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کردی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو پیدا تو جرمنی میں ہوئیں لیکن ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 57 سال پاکستان میں انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیے اور مرتے دم تک یہ خدمت کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈاکٹر رتھ کی خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں کوڑھ کے مرض کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اور ڈاکٹر رتھ ہی کی خدمات کی بدولت پاکستان کو ایشیا میں سب سے پہلے اس مرض پر قابو پانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس عظیم اور باہمت خاتون نے اپنی آنکھوں سے جنگ کی تباہ کاریاں دیکھیں اور آسمان سے گرتے گولوں میں اپنے اکلوتے بھائی کو مرتے دیکھا۔
تمام تر جنگی مشکلات برداشت کرتے ہوئے جنگ کے دوران ہی ڈاکٹر رتھ اپنے والدین اور 5 بہنوں سمیت مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی منتقل ہوگئیں جہاں انہوں نے شعبہ طب میں تعلیم مکمل کی اور اسی دوران ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری نامی تنظیم سے وابستہ ہوگئیں۔
جرمنی میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے ڈاکٹر رتھ نے شادی نہیں کی، وہیں جنگ سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے لگیں۔
اس کے بعد ’ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری ‘تنظیم نے انہیں اسائمنٹ پر بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا جہاں انہیں مدر ٹریسا سے ملاقات کرنا تھی۔
تاہم بھارت کی جانب سے ویزا کے اجرا میں سختی کی وجہ سے وہ بھارت نہ جاسکیں ۔
اس صورتحال میں ڈاکٹر رتھ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ پہلے پاکستان چلی جائیں اور وہاں سے بھارت کا ویزا حاصل کریں۔
اسی لیے وہ اطالوی ائیرلائن سے کراچی آگئیں اور یہاں سے بھارت کے ویزا کے لئے اپلائی کیا۔
اس زمانے میں جرمنی کی سماجی تنظیم ’ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری ‘کراچی میں میکلوڈ روڈ ( آئی آئی چندریگر روڈ) پر سٹی اسٹیشن کے قریب چھونپڑ پٹی میں 1955 سے چھوٹی سی ڈسپنسری میں کام کر رہی تھی۔
ڈاکٹر رتھ کو ایک مرتبہ ڈسپنسری کا دورہ کرایا گیا تو وہاں کا منظر دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا کیوں کہ ڈسپنسری میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج صرف پٹیاں کر کے کیا جارہا تھا۔
ڈاکٹر رتھ نے جرمنی میں اپنی تنظیم کو لکھا کہ بھارت کے بجائے ان کا اصل کام پاکستان میں ہے اور وہ یہیں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں۔
تنظیم کی جانب سے اجازت ملنے پر ڈاکٹر رتھ نے اپنا خاندان، گھر اور ملک الغرض سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی ساری زندگی پاکستان میں انسانیت کی خدمت اور کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لئے وقف کردی۔
ڈاکٹر رتھ کو عدالتی جنگ کا سامنا
1963 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی کے علاقے برنس روڈ پر لیپروسی سینٹر ( جزام سینٹر) کی بنیاد رکھی اور فیصلہ کیا کہ میکلوڈ روڈ پر جھونپڑ پٹی میں موجود کوڑھ کے مریضوں کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔
اس زمانے میں کوڑھ کے مریضوں کے پاس جانے کو بھی خطرناک سمجھا جاتا تھا اس لئے مریضوں کی منتقلی کا کام رات کی تاریکی میں کیا جاتا، چند ہی روز میں علاقہ مکینوں کو اسپتال کا معلوم ہوا تو انہوں نے اسپتال کے خلاف ہائیکورٹ میں کیس دائر کردیا۔
اس زمانے میں بااثر خاندان کی بااثر شخصیت ڈاکٹر زرینہ فضل بائی نے ڈاکٹر رتھ کا ساتھ دیا اور کیس لڑنے میں بھرپور تعاون کیا، انہوں نے عدالت کو مطمئن کیا اور فیصلہ حق میں آنے کے بعد لیپریسی سینٹر نے باقاعدہ طور پر کام شروع کردیا۔
ڈاکٹر رتھ نے مشاہدہ کیا کہ کراچی کے لیپریسی سینٹر میں ملک بھر سے مریض آنے لگے جس کے بعد انہوں نے 1965 میں مقامی لوگوں کو تربیت دینا شروع کی اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے پیرا میڈکس کو کوڑھ کے علاج کی تربیت دی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں، گرم ترین صحرائے تھر گئیں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا دورہ کیا اور سرحدی علاقوں میں موجود کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا۔
سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور مشرقی روایات میں ڈھل کر ڈاکٹر رتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں مریضوں سے بات کیا کرتیں اور پاکستانی زبانوں پر عبور حاصل نہ ہونے کے باوجود وہ مریضوں کی بات سنا کرتیں اور جب وہ کوڑھ کے مریضوں کو ہاتھ لگا کر علاج کرتیں تو دیکھنے والے حیرت زدہ ہوجاتے۔
ملک میں کوڑھ کے مرض کے خاتمے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر حکومت پاکستان نے انہیں 1969 میں ستارہ قائداعظم کے ایوارڈ سے نوازا اور اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان سے میڈل وصول کیا۔
ڈاکٹر رتھ نے 1975 میں خیبرپختونخوا، 1976 میں بلوچستان اور 1984 میں گلگت بلتستان میں لیپریسی سینٹر کھولے۔
1986 میں عالمی ادارہ صحت نے کوڑھ کے مریضوں کے لئے ملٹی ڈرگ تھراپی متعارف کرائی جو اس مرض پر قابو پانے کے لئے سود مند ثابت ہوئی۔
’پاکستانی مدرٹریسا کی بھارتی مدرٹریسا سے ملاقات‘
ڈاکٹر رتھ جس سماجی تنظیم سے جرمنی میں وابستہ تھیں اس نے انہیں بھارت میں مدر ٹریسا سے ملنے کا کہا تھا لیکن ویزا مسائل کی وجہ سے ڈاکٹر رتھ بھارت تو نہ جاسکیں البتہ مدر ٹریسا خود ہی پاکستان آگئیں۔
اس وقت کے صدر ضیاالحق نے مدر ٹریسا کو پاکستان مدعو کیا اور کراچی سے خصوصی طور پر ڈاکٹر رتھ کو بھی اسلام آباد بلایا گیا، اگر یوں کہا جائے کہ صدر ضیاالحق نے پاکستانی اور بھارتی مدر ٹریسا کی ملاقات کا اہتمام کیا تو غلط نہ ہوگا۔
صدرضیاالحق نے ڈاکٹر فاؤ کو فیڈرل ایڈوائزر مقرر کیا جس کے بعد پاکستان میں جاری لیپروسی پروگرام ان کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر رتھ کی کوششوں کی بدولت 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
’پاکستان کی شہریت نہیں لی‘
میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر نثار ملک کے مطابق صدر ضیاالحق نے ڈاکٹر رتھ کی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستانی شہریت جاری کی لیکن ڈاکٹر رتھ نے شہریت لینے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ اپنی جرمن شناخت کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
’مر جاؤں تو پاکستان میں دفن کیا جائے‘
نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ ہمیشہ کہتی تھیں جرمنی تو وہ ملک ہے جہاں میں پیدا ہوئی لیکن پاکستان میرے دل کا ملک ہے اور اگر میں مرجاؤں تو مجھے یہیں دفن کیا جائے۔
نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خواہش کے مطابق گورا قبرستان میں ان کی تدفین کی جائے گی۔
ایڈی لیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر کے مطابق جرمن لیپروسی ریلیف ایسوسی ایشن نامی تنظیم ان کی پارٹنر ہے جو پاکستان میں میری لیڈ سینٹر کے لئے 60 فیصد فنڈنگ کرتی ہے جب کہ پاکستان سے زکواۃ، خیرات، صدقات اور ڈونیشن کی صورت میں 40 فیصد امداد جمع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ملک بھر میں 157 سینٹر کام کر رہے ہیں جس میں نہ صرف کوڑھ کے مریضوں کا بلکہ اندھے پن کے کنٹرول، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، تپ دق کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے،
— میڈیا منیجر نثار ملک
ڈاکٹر رتھ کے سینٹر میں سالانہ 400 سے 500 کوڑھ کے مریض علاج کے لئے آتے ہیں تاہم مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے اور اس وقت تقریبا ساڑھے 500 مریض زیرعلاج ہیں جب کہ مجموعی رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 57 ہزار 700 سے ہے۔
ان کے مطابق ڈاکٹر رتھ سال 2000 تک تمام امور کی نگرانی خود کیا کرتیں اور ہر سینٹر میں جاکر انتظامات کا جائزہ لیتیں لیکن 2002 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد وہ تقریبا ہر سال جرمنی جاکر تنظیم کے لئے فنڈ ریزنگ کرتیں۔
نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاؤ کے خاندان کے لوگ جب تک زندہ تھے تو وہ جرمنی جاتی تھیں تاہم آخری مرتبہ وہ 2012 میں جرمنی گئیں جس کے بعد ڈاکٹروں نے ناساز طبیعت کے باعث انہیں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی پر ایک نظر: