مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی جارحیت کا 28 واں روز، کرفیو اور پابندیاں برقرار
آزاد کشمیر(رپورٹ:الیاس اعوان)مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارت کی مسلسل 28 ویں روز بھی پابندیاں جاری جس کے باعث کشمیری اب تک کھلی جیل نُما وادی میں محصور ہیں۔
کرفیو اور پابندیوں کے باوجود کشمیریوں کی مزاحمت جاری ہے جسے روکنے کے لیے قابض انتظامیہ نے وادی کو فوجی چھاؤنی بنا کر رکھا ہوا ہے۔
جگہ جگہ بھارتی فوجی اہلکار تعینات ہیں جب کہ حریت قیادت اور سیاسی رہنما بدستور گھروں اور جیلوں میں بند ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرفیو اور مواصلاتی پابندیاں فوری ہٹائی جائیں: او آئی سی
تعلیمی ادارے بند ،اخبارات کی اشاعت بھی رُکی ہوئی ہے اس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور مریضوں کو ادویات کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے۔
دوسری جانب قابض بھارتی حکومت نے 5 اگست سے گرفتار کیے گئے 10 ہزار کشمیریوں میں سے ساڑھے چار ہزار سے زائد پر کالا قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ’ لاگو کر دیا ہے۔
ان میں حریت رہنما، سیاسی کارکن، تاجر، سماجی کارکن اور عام نوجوان شامل ہیں۔
پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے دو برس تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے جب کہ بھارتی ایجنسیاں 35ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی چھان بین بھی کر رہی ہیں۔
کشمیری میڈیا سروس کے مطابق گزشتہ ماہ اگست کے دوران قابض بھارتی فوج نے بچے اور خاتون سمیت 16 کشمیریوں کو شہید کیا جب کہ 366 کشمیری زخمی بھی ہوئے۔
8 ہزار سے زائد کمشیری لاپتا
دوسری جانب کشمیر میڈیا سروس نے بھارتی فورسز کی حراست سے لاپتا کشمیریوں پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 29 برسوں کے دوران 8 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کی حراست کے دوران لاپتا ہوئے۔
کے ایم ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئیں جب کہ مقبوضہ وادی میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئی ہیں، گمنام قبریں بھارتی فورسزکی حراست سے لاپتا ہونے والوں کی ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
کشمیر میں اب کیا ہورہا ہے؟
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 6 کشمیری شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔
کشمیر میں حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں