176

’خان صاحب نے تلخ انداز میں کہا، دیکھتے ہیں نوازشریف کیسے بھاگتا ہے‘

’خان صاحب نے تلخ انداز میں کہا، دیکھتے ہیں نوازشریف کیسے بھاگتا ہے‘

12اگست 2014کو عمران خان سے میری آخری ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ دونوں صاحبزادے بھی تھے اور اس وقت وہ ان کو لندن رخصت کر رہے تھے۔ انہوں نے 14اگست کو لاہور سے اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کے لئے روانہ ہونا تھا۔ وہ دھرنے پر میری تنقید سے شدید ناراض تھے جبکہ میں دھرنے سے باز آنے کی التجا کرتا رہا۔




اپنے بیٹوں سے میرا تعارف کراتے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ سلیم کرپٹ بھی نہیں، نواز شریف پر بھی تنقید کرتا ہے، میرے ساتھ پرانی شناسائی کے علاوہ میری پارٹی میں ان کے ذاتی دوست بھی بہت ہیں لیکن نجانے کیوں میرا شدید مخالف ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ خان صاحب آپ استعمال ہونے جا رہے ہیں۔ آپ اگر انتظار کریں تو اگلی مرتبہ آپ خود بخود جمہوری طریقے سے وزیراعظم بن جائیں گے کیونکہ نواز شریف اپنی سیاست کی قبر خود کھود رہےہیں۔




اب آپ جس طریقے سے نواز شریف حکومت کو گرانے جا رہے ہیں، ایک تو اس طریقے سے وہ نکلیں گے نہیں اور دوسرا ملک کو اور اداروں کو نقصان ہوگا۔ خان صاحب نے کہا کہ سلیم! تم دیکھتے رہنا ہم ابھی اسلام آباد میں داخل بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ نواز شریف بھاگ جائے گا۔




میں نے گزارش کی کہ خان صاحب نواز شریف گریبان میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اور بوقت ضرورت وہی ہاتھ پاؤں تک بھی لے جاتے ہیں لیکن وہ سب کچھ اس گھر تک پہنچنے کیلئے کرتے ہیں۔ نواز شریف شاید زیادہ دیر سختی برداشت نہیں کر سکتے لیکن بزدل نہیں بلکہ کینہ پرور بہادر ہیں۔




12اکتوبر 1999کو جب تین جرنیلوں نے ان سے استعفے پر دستخط کرنے کا کہا اور جواب میں انہوں نے انکار کیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ موت کا رسک لے سکتا ہے۔

اس لئے نواز شریف کچھ بھی قبول کرلے گا لیکن استعفیٰ نہیں دے گا۔ دوسری طرف آپ مفت میں ان کو ہیرو بنا دیں گے اور ان کی بیڈ گورننس سے توجہ ہٹ جائے گی۔




مزید عرض کیا کہ خان صاحب جب سے نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں، تب سے اب تک میں نے ان کے حق میں ایک لفظ نہیں لکھا لیکن آپ کسی اور کے اشارے پر جس طرح نواز شریف کو نکالنا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے ہم جیسے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے۔




مزید عرض کیا کہ میرے پورے خاندان میں آج تک کوئی نواز شریف کا حامی نہیں رہا ہے اور نہ میرے خاندان کے کسی فرد نے کبھی ان کو ووٹ ڈالا ہے۔




آج نواز شریف اور ان کی بیٹی جن دو تین صحافیوں سے شدید ناراض ہیں ان میں یہ طالبعلم سرفہرست ہے۔ میں کسی صورت ان کی حمایت میں کھڑا نہیں ہونا چاہ رہا لیکن آئین اور نظام کے ساتھ کھڑا ہونا میں اپنا دینی اور قومی فرض سمجھتا ہوں۔




آپ دھرنے سے باز آجائیں ورنہ قیامت کے دن میں اللہ کی عدالت میں آپ کے گریبان میں ہاتھ اس بنیاد پر ڈالوں گا کہ اے میرے رب اس شخص نے مجھے زندگی میں پہلی بار نواز شریف جیسے حکمران کی حمایت پر مجبور کیا۔ پھر انتہائی تلخ انداز میں اجازت لیتے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ چلو سلیم! دیکھتے ہیں کہ نواز شریف کس طرح بھاگتا ہے۔




دو روز بعد عمران خان اور طاہرالقادری اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کیلئے روانہ ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب خودکش دھماکوں کا سلسلہ عروج پر تھا اور فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ لاکھوں آئی ڈی پیز گھروں سے باہر تھے۔ ملکی حالات اس طرح کے دھرنوں کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔




فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے میرے ساتھ انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا کہ دھرنوں کے پیچھے مغربی طاقتیں ہیں لیکن بہرحال خان صاحب اور قادری صاحب اپنے لائیو لشکر کے ساتھ دھرنا دینے اسلام آباد آگئے۔ چوہدری نثار علی خان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ آبپارہ سے آگے نہیں جائیں گے لیکن پھر ایک دن اچانک ڈی چوک کی طرف چل پڑے۔




یہاں انہوں نے 126دن کا دھرنا دیا۔ دھرنے کی وجہ سے وزیرستان آپریشن اور آئی ڈی پیز سے توجہ ہٹ گئی۔ چینی صدر کا سی پیک کے سلسلے میں دورۂ پاکستان ملتوی ہوا۔ اسلام آباد کے تاجروں کا کاروبار تباہ ہوا اور اسلام آباد میٹرو پر کام تعطل کا شکار رہا۔




اسلام آباد میں دھرنوں کی فوٹیجز جو روزانہ بھارتی اور مغربی میڈیا میں دکھائی جا رہی تھیں، پاکستان کا امیج خراب کرتی رہیں۔ سپریم کورٹ کی عمارت کی بے توقیری ہوئی۔ پولیس کا مورال ہمیشہ کیلئے زمین بوس ہوا۔




دھرنے کے کنٹینر سے ہر کسی کی بے توقیری کی گئی تاہم سب سے بڑا نقصان ملک کا یہ ہوا کہ سول ملٹری تعلقات کشیدہ ہو گئے جس کے خطرناک نتائج آج بھی یہ ملک بھگت رہا ہے جبکہ واحد فائدہ جو عمران خان کے حصے میں آیا، یہ تھا کہ میاں نواز شریف نے جو ہاتھ گریبان میں ڈالا تھا وہ قدموں میں چلا گیا اور جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھجوا دیا گیا۔




اللہ کا کرنا دیکھئے کہ آج صرف چند سال بعد سب کچھ یوٹرن لے چکا۔ جو خان صاحب کے لئے حلال تھا وہ مولانا کے لئے حرام ہوگیا اور جو مولانا کیلئے اس وقت حرام تھا، اب حلال ہو گیا لیکن الحمدللہ کہ اس وقت ہم نے کسی امپائر کے کہنے پر اپنے اصولوں سے یوٹرن نہیں لیا تو آج بھی یوٹرن لینے پر مجبور نہیں۔




ہمارے نزدیک آئین اور قانون کے اندر احتجاج عمران خان کیلئے بھی جائز تھا اور مولانا فضل الرحمٰن کیلئے بھی جائز ہے لیکن دھرنا عمران خان کیلئے بھی حرام تھا جبکہ مولانا کیلئے بھی حرام تصور کرتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو کئی حوالوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے زیادہ ناجائز سمجھتا ہوں لیکن انارکی کو ان کی حکومتوں پر ترجیح دی تھی اور نہ موجودہ حکومت پر ترجیح دیتا ہوں۔




تب عمران خان سے یہ درخواست کی تھی کہ دھرنوں کے بجائے قانونی دائروں کے اندر رہ کر احتجاج پر اکتفا کریں، نواز شریف کی سیاست کو اپنی موت آپ مرنے دیں اور آج مولانا سے درخواست کرتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو خود رسوا ہونے اور تبدیلی کے خواہشمندوں کو کچھ عرصہ اس تبدیلی کا مزہ چکھنے دیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

مولانا اس دن کا انتظار کیوں نہیں کرتے جب خان صاحب کا ہر حامی اپنے اوپر لعنت بھیجے۔ پلیز مولانا پلیز۔ تھوڑا صبر اور۔ بس چند ماہ




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں