83

محکمے وائلڈ لائف کی مانسہرہ کے علاقے اوگی میں قیمتی کھالیں فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی

محکمے وائلڈ لائف کی مانسہرہ کے علاقے اوگی میں قیمتی کھالیں فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی

مانسہرہ(ابراراحمد سٹی رپورٹر)محکمے وائلڈ لائف کی مانسہرہ کے علاقے اوگی میں قیمتی کھالیں فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے فیلڈ آفیسر ظہیر مرزا کے مطابق چند دن پہلے جب اسلام آباد سے تیندوے کی کھال برآمد کی گئی تو اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر مزید تفتیش کا فیصلہ ہوا تھا۔
ہم لوگ اسلام آباد میں موجود ایک مڈل مین سعد الحسن سے گاہک کے روپ میں ملے جو ہمیں مانسہرہ کے علاقے اوگئی تک لے گیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ اوگئی پہنچے تو ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ چکے تھے۔ ان کی حفاظت کا انتظام موجود تھا مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک انتہائی منظم اور خطرناک گروہ ہوگا۔
اوگئی پہنچنے پر ان کا استقبال دو لوگوں نے کیا جو انھیں گھماتے رہے اور پھر دو لوگوں کے حوالے کردیا۔ انھیں کوئی 10 مختلف لوگ اسی طرح گھماتے پھراتے رہے۔ ایک کپڑے اور درزی کی دوکان پر بٹھایا تو پتا چلا کہ ان صاحبان کے پاس بھی کچھ جنگلی حیات کے اعضاء وغیرہ موجود تھے۔

آخر میں انھیں ایک آبادی میں سب سے آخری گھر میں لے گئے۔ظہیر مرزا کا کہنا تھا کہ تین، چار کمروں پر مشتمل اس گھر کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے انھوں نے واضح طور پر دیکھ لیے تھے۔
’وہاں کا ماحول ہی بتا رہا تھا کہ معمولی سی غلطی بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ وہ ہماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھ رہے تھے اور آپس میں آنکھوں کے ذریعے سے بات کررہے تھے۔
’اس دوران ہم نے دیکھا کہ وہاں پر لومڑی، بھیڑیے، ہرن، ریچھ، پینگولین اور دیگر جنگلی جانوروں کی کھالیں اور اعضاء موجود تھے۔

اسی طرح وہاں پر تقریبا 300 کے قریب بوتلوں میں بند انتہائی قیمتی بچھو اور کالے بچھو موجود تھے جن کا وزن تین سو گرام سے کسی صورت کم نہیں تھا اور جن کی قیمت بلا مبالغہ کروڑوں روپے میں تھی۔‘
ظہیر مرزا کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ٹمبر کے کاروبار سے منسلک تھے مگر اس میں اب بہت سختی ہے اور مال پکڑا جائے تو بہت نقصان ہوتا ہے چنانچہ اب انھوں نے جنگلی حیات کے کاروبار کا آغاز کیا ہے۔اس میں اب تک خطرہ اور سزائیں بھی کم ہیں۔ کھالیں وغیرہ مفرور اور اشتہاری فراہم کرتے ہیں جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔
’اس دوران ہمیں سب سے بڑاجھٹکا تو اس وقت لگا جب موقع پر موجود ایک بندے نے ہمیں اپنے موبائل میں سے برفانی تیندوے کی کھال دکھائی۔’اپنے گاہکوں کو یقین دلانے کے لیے اس نے کھال کے ہمراہ تصویر لی ہوئی تھی۔

وہ بتا رہا تھا کہ اس وقت چار برفانی تیندووں کی کھالیں موجود ہیں جن کی اگر ادائیگی کردی جائے تو موقع پر پہنچا دی جائیں گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوے کی کھال میں وہ سودے بازی کرنے اور کوئی بات کرنے کو بالکل تیار نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ اس گروہ کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور تیندوے کی مزید تین کھالوں کے بہانے اس گروہ کے مزید لوگوں کو اسلام آباد لایا جائے گا، مگر بہت زیادہ قانونی مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ جس کے بعد سعد الحسن نامی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کروایا گیا

جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔اس شخص کی تیسرے دن ضمانت ہوگئی تھی۔غیر قانونی کاروبار کا پھیلاؤ کہاں تک؟حکام کے خیال میں اوگئی، مانسہرہ میں موجود گروہ کو ضلع مانسہرہ، ایبٹ آباد، ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ)، کوہستان، گلگت بلتستان اور دیگر اضلاع کے دور دراز علاقوں میں پناہ لیے ہوئے جرائم پیشہ عناصر جنگلی حیات کا شکار کر کے کھالیں اور اعضاء فراہم کرتے ہیں۔
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس کے مطابق مذکورہ علاقہ ان کی حدود میں نہیں آتا جس کی بناء پر وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، تاہم وائلڈ لائف صوبہ خیبر پختونخوا کو اس بارے میں اطلاع فراہم کردی گئی ہے’اس کے علاوہ اس سارے معاملے پر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے اجلاس میں بحث ہوئی تھی جس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف کا نمائندہ بھی موجود تھا۔
رابطہ قائم کرنے پر محکمہ جنگلی حیات صوبہ خیبر پختونخوا کے قائم مقام چیف کنزرویٹر محمد علی نے ضلع مانسہرہ اور صوبے بھر میں کسی بھی قسم کے جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کی سختی سے تردید کی۔ان کا دعویٰ تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، اور اگر واقعی اس میں کچھ سچ ہے تو اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ ہمیں ثبوت دے ہم کارروائی کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں