114

یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کیلئے اسلام آباد میں دفتر کھونا لازمی قرار

یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کیلئے اسلام آباد میں دفتر کھونا لازمی قرار

اسلام آباد (اظہر حسین قاضی سٹی رپوٹر) حکومت نے انتہائی خاموشی سے سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین بنالیے ہیں اور وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قوانین کی منظوری بھی دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قواعد میں ترمیم کردی ہے جسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ضرورت نہیں۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے سینئر حکام نے قانونی مسودہ کی منظوری کی تصدیق کردی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ نئے قوانین کے مطابق تمام عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی 3 ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے جس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر تمام کمپنیوں کو 3 ماہ میں رجسٹریشن کرانا ہوگی۔

نئے قواعد کی رو سے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے 3 ماہ میں اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ ان پر پاکستان میں رابطہ افسر تعینات کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔

نئے قوانین کے تحت یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پربنائے جانےوالے مقامی پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دی گئی ہے۔

‘تمام کمپنیوں کو پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرور بنانا ہوں گے’
ذرائع کے مطابق تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بنانے ہوں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ اتھارٹی ہراسانی، اداروں کو نشانہ بنانے اور ممنوعہ مواد کی شکایت پر اکاؤنٹ بند کر سکے گی ۔

‘ قواعد پر عمل نہ کیا تو 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا’





اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف ویڈیوز نہ ہٹانے پر ایکشن بھی لیا جائے گا اور اگر کمپنیوں نے تعاون نہ کیا تو ان کی سروسز معطل کر دی جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق اگر کمپنیوں نے قواعد پر عمل نہ کیا تو 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔




اس حوالے سے حکام وزارت آئی ٹی کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنادیاگیا ہے اور ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔

آئی ٹی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ادارے قابل اعتراض مواد پر کارروائی کرسکیں گے۔




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں