وزیراعظم کا پہلا ۔۔۔دورہ کابل
آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ پہلے نوے دن کسی بھی ملک کا دورہ نہیں کرینگے ۔ مگر ایسا نہیں ہوا انہوں وزیراعظم بننے کے بعد متعدد ممالک کے دورے کئے ۔ جبکہ گزشتہ روز انہوں نے امریکی اعلانات کے وہ اپنی مزید فوج افغانستان سے بلائے گا ۔ کے فورا بعد اس دورے کا فیصلہ ہوا ۔دیکھا جائے تو ان کو یہ دورے دورہ سب سے پہلے کرنا چاہے تھا ۔ اس دورے میں وزیر اعظم نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات میں افغانستان میں جاری امن مذاکرات اور باہمی اعتماد سازی پر گفتگو کی۔افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان کی کابل آمد کو ایک تاریخی موقع قرار دیا
جب کہ عمران خان نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گا۔ افغان صدارتی محل میں ملاقات کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ عمران خان ‘اہم پیغامات لے کر آئے ہیں جن کا تذکرہ وہ خود کریں گے بقول ان کے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تشدد کوئی جواب نہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے کہامیں کم از کم پچاس برس سے افغانستان اور کابل آنے کا منصوبہ بناتا رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ میں خوش ہوں کہ آپ نے دعوت دی اور مجھے یہ تاریخی دورہ کرنے کا موقع ملا۔بقول ان کے افغانستان کی تاریخ کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستانیوں کا سیاحت کے لیے پسندیدہ مقام کابل تھا اور افغانستان سے بہت سے لوگ پشاور جایا کرتے تھے۔
ہمارے تاریخی روابط اور تعلقات ہیں۔ اس دورے کا ایسے موقع پر ہوا جب امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ جنوری کے وسط تک افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد 4,500 سے کم کر کے 2,500 کر دے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتطامیہ نے طالبان کے ساتھ اپنے ابتدائی معاہدے میں امریکی افواج کے بتدریج انخلا کا وعدہ کیا تھا ۔امریکی اعلان کے تازہ فیصلے کے بعد افغانستان کے حکمران خصوصا شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اس فیصلے سے طالبان اور دیگر شدت پسند جنگجو زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بظاہر تعطل کا شکار نظر آرہے ہیں اور افغانستان میں تشدد میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس موقع پر عمران خان کے بقول ایک ایسے وقت، جب افغانستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، افغانستان آنے کا مقصد آپ کو یقین دلانا ہے کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کو بھی صرف ایک ہی تشویش ہے اور وہ ہے جو آپ یہاں محسوس کر رہے ہیں کہ آپ امن چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں
کہ افغانستان کے عوام چار دہائیوں سے تکلیف میں ہیں۔اس دورے میں عمران خان نے ماضی کے برعکس اعلانیہ کہا کہ پاکستان نے طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کرانے میں کردار ادا کیا ہے اور بعد میں انٹرا افغان مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ مذاکرات کے باوجود افغانستان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت کا انتخاب کرنے کا مقصد آپ کو یقین دلانا ہے کہ پاکستان تشدد کے واقعات میں کمی لانے اور سیز فائر کرانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔اس دورے میں دونوں ممالک نے سلامتی سے متعلق اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے کے لیے مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا۔اس دورے کی اہم بات یہ نکہ عمران خان اور اشرف غنی نے جن مسائل پر بات چیت کرنی تھی پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا۔
کیونکہ اس وقت امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد صورتحال بہت مختلف نظر آرہی ہے ۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ بعدامنی سے جہاں خود افغانستان بہت متاثر ہے وہاں دوسرا ملک پاکستان ہے جس پر اس کے برائے راست اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسی لئے ہر پاکستانی حکمران کی خواہش ہوتی ہے کہ افغانستان میں امن ہوہے۔ کیونکہ افغانستان میں بدامنی سے سابق فاٹا جنگ سے بہت زیادہ متاثر ہو تا رہا ہے ۔جس کی بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوئی، شہروں کی زندگیاں متاثر ہوئیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ان لوگوں کی یا سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کی مدد کرنے کا سب سے اچھا طریقہ امن، تجارت اور باہمی رابطہ کاری ہے۔ تجارت کے وزرا کے مابین گزشتہ تین روز کے دوران مثبت گفتگو ہوئی ہے
اور ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت اور روابط میں اضافہ ہو گا لیکن اس کے لیے امن کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ان تمام باتوں کی حقیقت اپنی جگہ مگر اس دورے میں سب سے اہم موضوع یعنی ڈیورنڈ لائن پر بات نہیں کیونکہ کوئی بھی افغان اور اکثر پشتون اس لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ اس سرحد کے آر پار رہنے والوں کا ایک رنگ ،نسل ،زبان اور مشترکہ مفادات ہیں ۔ جس کے لئے حکمت عملی وضع کئے بغیر مستقل امن نا ممکن ہے ۔ جس کی مثالیں ماضی میں آزاد پشتونستان تحریک ہے ۔ لہذا اس مسئلہ کو حل کرنا ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ ماضی مںی سعودی وزیر نے بھی اس مسئلہ کے حل کے بغیر دونوں ممالک میں امن کو مشکل ترین قرار دیا تھا ۔