اصلاحِ خودی کی فکر ہونی چاھیئے
تحریر:فرزانہ خورشید
خیالات، نظریات ،روئیے ،عادات و افکار کے تحت ہر انسان کا مزاج دوسرے سے منفرد ہوتا ہے۔ اپنا زیادہ تر وقت جن کے ساتھ ہم گزارتے ہیں،یا جن کی صحبت کو ہم پسند کرتے ہیں ،ان کے افکار و خیالات کا بھی ہم پر اثر پڑنے لگتا ہے، تب ہی کہا جاتا ہے صالح کی صحبت اختیار کرو اور اچھے لوگوں کے ساتھ اپنا کچھ وقت لازمی گزاروں تاکہ تم پر بھی ان کا عکس آجاۓ۔
عادات و روئیے اور خیالات مختلف ہونے کی بنا پر انسان میں مزاجوں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہے۔ اور مزاج چونکہ خیالات کا ہی عکس ہوتے ہیں اور خیالات پر کام کرکے مزاج وعادت کو باآسانی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ میرا موضوع مزاج کی جس قسم سے متعلق ہے وہ آج معاشرے کا مزاج بن چکا ہے۔
تنقید جو کہ معاشرے کا حصہ ہے ہی مگر اس سے بھی بڑھ کر جج کرنے والا مزاج غلط مفروضے،بےجا تبصرے اور بغیر تحقیق کے منفی رائے بنالینے اور بے دھڑک اس کے اظہار اور دل آزاری میں کوئی عار بھی محسوس نہ کرنا،عام سی بات ہے
کہیں جگہ پر تو یہ ضرور فائدہ مند ہے کہ جب دو راستے ہوں، ضروری ہے کہ پرکھ لازمی کیا جائے کہ کون سی راہ صحیح ہے مگر ہر بات پر لوگوں اور ان کے خیالات،عادات اور ان کے کاموں کو جج کرتے رہنا، اگر اچھائی نظر آئے تو اسے منافقت کا نام دے دینا اور اگر برائی مل جائے تو اس کا خوب چرچا کرنا، منافق سمجھنا اچھائی کو بامشکل ہضم ،خود بھلے بھلائی کے کاموں سے کوسوں دور، مگر دوسروں کے کردار ،نیت اور افعال پر شک کرنا ،لوگوں میں رواج بنتا جا رہا ہے
ارشادِ باری تعالی ہے۔”جس نے تقوی اختیار کیا اور اس نےاپنی اصلاح کرلی،تو اس پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوگا”۔ اگر کوئی شخص اپنی عادات ،خیالات پر کام کرکے اپنی برائیوں کی اصلاح کرتا ہے تو اللہ اسے ہر غم سے آزاد اور بے خوف کر دیتا ہے اور سکون جو کہ، مادی اشیاء کے ڈھیر سے بھی ملنا ناممکن ہے اللہ اصلاح اور اس کی جانب توجہ اور کوشش کرنے والوں کو عنایت کر دیتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کسی کی اچھائی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ حقیقت ہے یا منافقت اس کو جانچنے والے ہم کون ہے اور یہ ہمارا حق کیسے بنتا ہے؟ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ “لوگ منافقت کا لبادہ اوڑھے پھرتے ہیں ہم سے تو دکھاوا نہیں ہوتا”. دلوں کے حال کی ہمیں کیا خبر ؟ہم تو اس سے بھی انجان ہیں کہ خدا تعالی کے نزدیک ہماری کوئی ایک نیکی بھی قبول ہوئی بھی یا نہیں۔ جو ہماری نظروں میں برا ہے،نجانے اس کی کیا
ادا،رب کو پسند ہو اگر یہ ایک بہتان ہوا تو اس ایک جملے کا وبال کتنا بھاری ہوگا کبھی سوچا ہم نے۔۔۔۔
رہی بات ان لوگوں کی بقول آپکے ،جو دِکھاوا کرتے اور منافقت رکھتے ہوں تو وہ دھوکا خود اپنے آپ کو دیتے ہیں کیونکہ اللہ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ ” وہ اللہ تعالی اور اہل ایمان کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں تو وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔”
ہمارا فرض تو اپنی اصلاح اور ہماری نظر اور ساری کوشش تو فکر اصلاح کی طرف ہونی چاہیے اچھی بات جہاں سے بھی ہمیں مل جائے، اس پر عمل اور برائی جہاں بھی دِکھے، اس سے دور رہنا چاہیے ،بجائے اس کہ ہم نہ تو خود اصلاح کی فکر کریں اور دوسرا جو کہ کر رہا ہے، اسے بھی اپنی حقارت بھری طنز و تنقیدی نظروں کی وجہ سے دور کر دیں۔” جب نفاق اور منافقت کے بارے میں آیت و احادیث سامنے آئی صحابہ کرام خوفزدہ ہو کر رو پڑے اور خود کو جانچنے لگ پڑے کہ آیا کہ منافق کی کوئی نشانی تو کہیں ہم میں نہیں۔جب انسان خود کا اکیلے میں احتساب کرنے لگے
تب ہی برائی کا اقرار اور پھر اسے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ خود احتسابی کے بغیر اصلاح ناممکن ہے،، ہر وقت تنقیدی نگاہ اور جانچنے والے افراد زیادہ ترنا خوش رہتے اور اصلاح سےغافل ہو جاتے ہیں ہر چیز کو ناپتے تولتے یہ کیوں ہے ایسا کیوں نہیں ،کے چکروں میں الجھ کر اپنا قیمتی وقت ،صلاحیت اور توانائی برباد کر ڈالتے ہیں۔
ہمارا فرض بس یہ ہے کہ کسی کے کردار نیّت اور اس کے کام پر شک کرنے اور منافقت کا نام دینے سے زیادہ اہم اپنی اصلاح کی فکر کرنا ہے جو اچھا نہیں خود میں اسے پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی جستجو اور اسے درست کرتے رہنا ہے ،ہر گزرتے دن کے آخر میں خود کو جانچیں ،محاسبہ کریں کہ کہاں غلطی ہوئی ،اور اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے زندگی اصلاحِ خودی کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے اسے اپنے ایمان کو بڑھانے کے لئے استعمال کریں سزا اور جزا رب پرچھوڑ دیں ،وہی قادر دلوں کے بھید جاننے والا حکمت والا ہے۔