صرف تعلیمی ادارے ہی کیوں۔۔۔؟
ظہیر احمد تنولی
حکومتی پالیسیاں اور احکامات بلاشبہ عوام کے وسیع تر مفاد میں جاری ہوتے ہیں۔ اور یقیناً اس کے لیے عوامی فلاح و بہبود کے تمام زاویوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔اس وقت جب پوری دنیا کرونا وائرس نامی وبا کی زد میں ہے۔ تو ایسے میں تمام پالیسی سازوں کی توجہ بھی اس سے نجات پر مرکوز ہے۔مملکت اسلامی پاکستان کی موجودہ حکومت اپنی نا سمجھ میں آنے والی پالیسوں کی وجہ سے پہلے ہی اکثر اہل فکر و نظر کی زد میں رہتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ موجودہ ملکی حالات میں لمحہ لمحہ اعصاب شکن ماحول میں نہ ہی کوئی واضح پالیسی دی جا سکی اور نہ ہی حکومتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے مشنری کو سہولیات دے سکی۔اور پھر بالکل ایسے وقت میں کہ جب ہم صرف بارڈرز بند کر کے اس وباء کو پھیلنے سے روک سکتے تھے
کھلے عام بارڈرز سے بغیر کسی چیک اپ کے ہزاروں کی تعداد میں کرونا کے مریضوں کو ملک کے طول وعرض میں جانے دیا۔ اور جب حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے مذہبی عبادت گاؤں سمیت تعلیمی اداروں کو بھی بند کردیا گیا۔ بات صرف یہاں تک رہتی تو سمجھ میں آتی تھی لیکن کوئی واضح پالیسی نہ دے کر ملک میں ایسے حالات پیدا کر دیے گئے۔ کہ ایک طرف تو فرقہ وارانہ ماحول کو ہوا ملنے لگی اور دوسری طرف تعلیمی ادارے اور والدین بھی آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
اول الذکر مسئلے پر تو پھر کبھی غور ہوگا۔ابھی آخر الذکر مسئلے پر غور کرتے ہیں۔ دور جدید میں ہم ایک لمحے کے لیے بھی عصری تعلیم سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اور شاید یہ وہی لمحے ہیں جن میں کی گئی خطاؤں کی سزا صدیوں بھگتنی پڑھتی ہے۔ یقین نہ آئے تو سابقہ دو صدیوں سے مسلمانوں کے حالات کو پڑھ لیجیے۔
ایسے حالات میں چاہئے تو یہ تھا کہ تعلیمی اداروں سے متعلق کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی مرتب کی جاتی اور اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کی آراء و تجاویز کو سنا جاتا۔ لیکن یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ تعلیمی اداروں کو کو ایک محلے کی کرکٹ کمیٹی نما اداروں کے سپرد کردیا گیا۔ اور صرف وزراء بیٹھ جاتے ہیں۔انہیں بھی شاید پالیسیاں اور ہدایات کیں سے لکھی ہوئی ملتی ہوں۔ وہ بیٹھ کر پورے تعلیمی نظام پر فیصلہ مسلط فرما دیتے ہیں۔
اس میں نہ تو تعلیمی اداروں کے مسائل کو سمجھا اور پرکھا جاتا،نہ بچوں کے مستقبل کو، نہ والدین کے مسائل کو اور نہ ہی تعلیمی نظام کے ساتھ وابستہ لاکھوں ان افراد کو جنہیں معاشرے کا معمار کہا جاتا ہے۔جی ہاں اساتذہ کرام وہ طبقہ جو باوجود ”سرکاری مراحات” کے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتیہیں۔ تو اک وہ طبقہ جو پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کو آباد کیے ہوئے ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ
تعلیم و تربیت کرکے معاشرے کو قابل فخر سپوت فراہم کررہے ہیں، بلکہ اپنے لیے باعزت روزگار کما کر حکومت پر بے روزگاری کی صورت میں پڑھنے والا بوجھ بھی کم کر رہے ہیں۔
ان سب کو نظر انداز کر کے صرف چند مخصوص لوگوں کی مخصوص سوچ کے زیر اثر تعلیمی اداروں سے متعلق فیصلے کرنا انتہائی بے وقوفانہ فعل ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔رہی بات بیماری کی تو یقیناً یہ بیماری انتہائی اذیت ناک ہے اور اس وقت جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے متعلق کوئی بھی رسک نہیں لیا جا سکتا۔ مگر کیا یہ صرف تعلیمی ادارے بند کرنے سے رک جائے گی۔ یا کہ اس کی دشمنی ہی صرف تعلیم کے ساتھ ہے (پالیسی سازوں کی ہو تو الگ بات ہے)
لیکن وبا کو کسی مخصوص ادارے یا مخصوص طبقے سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں ذرا سی بے احتیاطی ہوگی وبا ہوگی۔تو ایسے میں ایک مکمل جامع پلان ہونا چاہیے جس میں سب سٹیک ہولڈرز اور ماہرین فن کی آراء و تجاویز کی روشنی میں پالیسی بنے اور پھر اس پر مکمل عملدرآمد ہو۔یہ نہ ہو کہ جب ایک وبا سے جان چھوٹے تو خدانخواستہ جہالت،بیروزگاری،سٹریٹ کرائم سمیت مختلف انواع و اقسام کی وبائیں ہماری منتظر ہوں۔اور ان پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس کوئی ادارہ بند کرنے بھی آپشن موجود نہ ہو۔