90

کورونا پرسیاست کی بجائے عوام کو بچایا جائے!

کورونا پرسیاست کی بجائے عوام کو بچایا جائے!

تحریر:شاہد ندیم احمد
ایک طرف کورونا وبا کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری جانب ملک بھرمیں حکومت اور اپوزیشن کی جنگ میں مسلسل شدت آتی جا رہی ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کررہا ہے، بلکہ جماعت اسلامی نے بھی عوامی اجتماعات کی شکل میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف مہم شروع کر دی ہے۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود پشاور میں پی ڈی ایم نے جلسے کا پنڈا ل لگایا، جبکہ عت اسلامی نے بھی سوات میں طے شدہ پروگرام کے مطابق احتجاجی ریلی نکالی ،

حکومت کورونا کی دوسری لہر کی شدت کے پیش نظر اجتماع سے روک رہی ہے ،مگر اپوزیشن اپنے احتجاجی جلسے نہ روکنے پر بضد ہے ،اس پر وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم ہی پہلے سخت لاک ڈائون چاہتی تھی اور، اب اپنے مفاد کیلئے عوام کی صحت کے ساتھ لاپروائی سے سیاسی کھیل، کھیل رہے ہیں۔دراصل پی ڈی ایم قیادت عوام دوست نہیں،ان کے نزدیک عوام صرف اقتدار کی گاڑی کے فیول ہیں، عوام کو جلسوں میں لاکر خطرے میں ڈالنے والے اپنی بہن کی منگنی پر مہمانوں کا کورونا ٹیسٹ کرارہے ہیںاور میاںنواز شریف نے اپنے شیرجوان لندن میں رکھے ہوئے ہیں،

جبکہ عوام کے شیرجوانوں کواحتجاجی جلسوں میں لا کر کورونا وائرس کی دلدل میں دھکیلا جارہاہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کورونا کی نئی لہر کی زد میں ہے۔ کورونا وائرس کے دوران دیگر سرگرمیوں کی طرح دنیا بھر کی سیاسی قیادت عوام سے آن لائن رابطوں کو رواج دیتے نظر آتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں پی ڈی ایم قیادت کا کہنا ہے کہ ناجائز حکمران بذاتِ خود کورونا ہیں،عوام کورونا کی آڑ میں ووٹ چوری کرنے والوں کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ حکومت نے این آر او مانگا تھا، پی ڈی ایم نے مسترد کردیا

پہلے کووڈ اٹھارہ ختم کریں گے، پھر کووڈ انیس سے نمٹیں گے، حکومتی کورونا بچ گیا تو لوگ مرجائیں گے۔اس موقع پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی پیچھے نہیں رہے ،اُن کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا کوئی مذاق نہیں، پہلے تحریکِ لبیک نے لاہور میںکورونا بم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب پی ڈی ایم پشاور کے بعد ملتان سے لاہور تک حشر برپا کریں گی۔اپوزیشن کے قول فعل کے تذاد دیکھیں کہ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کیلئے کورونا ٹیسٹ منفی ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے ،جبکہ احتجاجی جلسوں کے انعقاد پر اصرار کرکے عوام کی جانوں کو بیدریغ خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کورونا پھیلائو کے خدشات کو سیاسی کھیل کی حیثیت میں دیکھ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام خاص طور پر عوام کوباور کروانے کی کوشش کررہی ہیں کہ حکومت کورونا کی آڑ میں پی ڈی ایم کے جلسوں کو روکنا چاہتی ہے،

پی ڈی ایم نے جہاںبھی جلسہ کیا ،وہاں کی ضلعی انتظامیہ منتظمین کو یاد دہانی کرواتی رہی ہے کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر شدت پکڑ رہی ہے ،اس لیے جلسے کا پروگرام منسوخ کر دیا جائے،مگر اپوزیشن نے انتظامی افسران کی اپیل کو سنجیدگی سے نہ لے کر ثابت کیا ہے کہ اسے غریب مفلس افراد کی ذرا پرواہ نہیںہے،ایسا لگتا ہے کہ کرونا وائرس کی پروا کئے بغیر اپوزیشن ہر صورت حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر تُلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کو اعتماد ہے کہ جو کچھ کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں حکومت ختم ہو جائے گی،جبکہ حکومت کے خاتمے کیلئے کوئی آئینی یا قانونی راستہ موجود نہیں ،پارلیمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد کر کے ہی حکومت کو فارغ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس آپشن پر اپوزیشن میں اتفاق رائے موجود ہے نہ ہی اس پر کام ہو رہا ہے،اس بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی سے حکومت تو نہیں جائے گی ،البتہ ملک و عوام کو نقصان ضرورہو گا۔
حکومت کورونا کی نئی مہلک لہر کے بارے میں جو بھی موقف اور حفاظتی تدابیراختیار کررہی ہے، اس سے اختلاف نہیں جاسکتا۔ مگراپوزیشن کی جانب سے عدم تعاون کی سچائی پر کھنے کی ضرورت ہے، کیا حکومت نے واقعی شائستگی اور سنجیدگی کے ساتھ پی ڈی ایم قیادت سے مذاکرات یا ملاقات کا ڈول ڈال کر کورونا کی نئی لہر کے انسداد کی کوئی ایک بھی کوشش کی ہے؟حکومتی وزراء کورونا کی بنیاد پر پی ڈی ایم کو مطعون تو مسلسل کررہے ہیں،مگر پی ڈی ایم سے مصافحہ یا معانقہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بروئے کار نہیں آ سکی ہے، اگر وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے پر تیار ہی نہیں ہیں

تو پھر پی ڈی ایم قیادت سے تعاون کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آئینی حدود میں اپنے اختلافات حل کرنے کے لئے جلد از جلد افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، گرینڈ قومی ڈائیلاگ ہی موجودہ صورت حال سے نکلنے کی واحد تدبیر ہے۔پی ڈی ایم کے مرتب کردہ میثاقِ پاکستان نے مکالمے کے لئے واضح بنیاد فراہم کردی ہے، لیکن آج سیاسی اختلافات جس طرح ذاتی دشمنی میں بدل چکے ہیں، اُس بنیادپرمفاہمت کے راستے پر آنا مشکل ہے،تاہم ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ مقتدر ادروں کی اعلی قیادت پیش رفت کرتے ہوئے اختلافات کا حل سڑکوں کے بجائے مذاکرات کی میز پر ممکن بنائیں،اس وقت سیاست کی بجائے عوام کو کرونا سے بچانا سب سے زیادہ اہم ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا فرض ہے کہ عوامی زندگیوں کے تحفظ کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں،سیاست کیلئے ساری زندگی پڑی ہے ،یہ بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں