مائیںسب کی سانجھی ہوتی ہیں !
تحریر:شاہد ندیم احمد
مائیں توسب کی سانجھی ہوتی ہیں،ماں امیر کی ہو یا غریب کی ڈھنڈی چھائوں ہوتی ہے، اگر ماں اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو جائے تو اولاد کے سر سے ڈھنڈی چھائوں چھن جاتی ہے، میاں برادران سے بھی ماں کی ٹھنڈی چھائوں چھین گئی ہے، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ انہیں چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں، شریف برادران کی والدہ بیگم شمیم اختر کی رحلت کی خبر پورے ملک میں رنج و الم کے جذبات کے ساتھ سنی گئی
، اللہ پاک مرحومہ کے درجات بلند کریں اور پیچھے رہ جانے والوں کو صبر دے کہ ماں کا بچھڑجانا ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ اس موقع پر صدر اور وزیراعظم سمیت مختلف طبقہ فکر کی جانب سے جس طرح دکھ و غم کا اظہار کیا گیا، قابل ستائش ہے کہ انسانیت سے بڑھ کہ کچھ نہیںاور پھرمائیںتو سب ہی کی سانجھی ہو تی ہیں۔
محترمہ شمیم اختر سے جن لو گوں کو ملاقات کے مواقع ملے، کسی محفل میں انھیں دیکھا یا اُن کی کوئی گفتگو سنی ،ان سب کا خیال ہے کہ ایک سیدھی سادی، عبادت گزار گھریلو خاتون تھیں ،جن کا کسی سیاسی سرگرمی یا دنیا داری کے ساتھ کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ جو کوئی بھی ان کے سامنے آتا اور احترام سے جھک کر سلام کرتا، وہ اپنے نرم مہربان لہجے میں انھیں دیر تک دعائیں دیا کرتیں تھیں،
جبکہ مجید نظامی مرحوم کہنا ہے کہ محترمہ شمیم اختر کوئی معمولی خاتون نہیں،ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ شریف برادران کی پرورش اور تربیت میں ان کے والد میاں محمد شریف کی آہنی شخصیت اور مزاج کا حصہ بہت زیادہ ہے، یہ تاثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں، لیکن میری ذاتی رائے میں ان کی والدہ کا حصہ کہیں زیادہ ہے، محترمہ شمیم اختر کی شخصیت کا ایک پہلو تو وفادار اور پروقار خاتون خانہ کا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک روحانی خاتون بھی تھیں،یہی وجہ تھی کہ میاں برادران، خصوصاً میاںنواز شریف اپنے ہر فیصلے سے قبل ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے منصوبوں، فیصلوں اور سیاسی مہم جوئی کے ارادوں سے انھیں سب سے پہلے آگاہ کرتے اور ان کی اجازت کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔
اس حوالے سے مجیب الرحمن شامی اور جمیل اطہر قاضی اس کی تائید اس طرح کرتے ہیں کہ آسائشوں کے عادی اس خاندان پر 1999 کے بعد پے درپے مصیبتیں آئیں، یہ لوگ صرف اقتدار سے محروم نہیں ہوئے، جیلوں میں نہیں بھیجے گئے، بلکہ ان موقع پر میاں شریف، عباس شریف اور کلثوم نواز کی وفات جیسی آزمائشیں بھی آئیں، لیکن ان تمام مراحل پر کسی روایتی عورت کی طرح وہ اپنے شوہر اور بیٹوں کے لیے کمزوری کا باعث نہیں بنیں، بلکہ چٹان کی طرح ان کی پشت پر کھڑی ہو گئیں، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی کامیابی میں ان کی والدہ کی سرپرستی اور رہنمائی کا کردار سب سے زیادہ ہے ۔
گزشتہ میاں نواز شریف جب جیل میں علیل ہو گئے اور انھیں ملک سے باہر بھیجنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں تو انھوں نے بیرون ملک جانے سے انکار کردیا تھا، اس مرحلے پر بھی اعلی حکام نے ان کی والدہ سے ہی رابطہ کر کے درخواست کی تھی کہ ان کی بیٹے کی صحت خراب ہے، اگر مزید بگڑ گئی تو اس سے بہت پیچیدگی پیدا ہو جائے گی، اس سے لیے آپ انھیں بیرون ملک بھیجنے کے لیے قائل کریں،یہ بحران بھی شمیم اختر مرحومہ کے متحرک ہونے سے ٹلا تھا،
اس طرح اس دنیا سے جاتے جاتے بھی خالص گھریلو خاتون ہوتے ہوئے بھی قومی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر گئیں،وہ اپنے اس کردار کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تادیر یاد رکھی جائیں گی۔
بیگم شمیم اختر نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور اپنے خاندان کی خوشحال و متمول زندگی کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں اس خاندان پر ٹوٹنے والی سختیاں بھی دیکھیں اور برداشت کیں اور اپنے بچوں کو ہمیشہ ثابت قدم رہنے کی ہی تلقین کرتی رہی ہیں۔ وہ میاں نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد لندن گئی تھیں اور انکے ساتھ ہی مقیم تھیں ،پچھلے ایک ماہ سے اُن کی طبیعت زیادہ خراب رہی اور اسی خرابی صحت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملیں،
مرحومہ کی میت پاکستان لائی جارہی ہے اور تدفین جاتی امراء میں اُن کے شوہر میاں شریف کے پہلو میں مختص جگہ پر ہوگی۔ حکومتِ پنجاب نے مرحومہ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے اُن کے زیرِ حراست بیٹے میاں شہباز شریف اور پوتے حمزہ شہباز کو پیرول پر رہا کرنے کا اعلان کرکے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے جس پر کسی لیت و لعل کے بغیر عمل کیا جانا چاہئے کہ ایسے مواقع پر کشادہ دلی سے کام لینا انسانیت کا بنیادی تقاضاہے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاست میں رواداری کا جذبہ مفقود ہونے کے باعث خوشی و غمی کے موقع پر بھی ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی روایت مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ بے شک حکومت کی جانب سے میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی پیرول پر رہائی ایک مثبت فیصلہ ہے، تاہم میاں نوازشریف کا اس خدشے کے تحت اپنی والدہ کی میت کے ساتھ ملک واپس آنا ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ ملک واپس آتے ہی قانون کے شکنجے میں آجائینگے، انہیں بہرصورت ملکی قوانین اور انصاف کی عملداری کی پاسداری کرنی چاہیے،میاں نواز شریف کو اپنی سیاسی زندگی کی کٹھنائیوں کے
دوران اپنے والد‘ اہلیہ اور والدہ کے انتقال کے صدمات اٹھانا پڑے ہیں ،تا ہم ہماری سیاست اتنی بے رحم ہے کہ بیگم میاں محمدشریف کے انتقال کی خبر سن کر بھی پی ڈی ایم کے قائدین نے اپنا پشاور کا جاری جلسہ برخواست کرنے یا اسے تعزیتی جلسے میں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ،بلکہ جلسے میں ڈی جے کی دھنوں پر گانے بھی چلائے جاتے رہے، جبکہ مریم نواز اپنی دادی کے انتقال کی خبر سن کر بغیر تقریر کئے جلسے سے چلی گئی تھیں، بیگم میاں محمد شریف کے سانحہ ارتحال پرساری عوام شریف خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں،کیو نکہ مائیں تو سب کی سانجھی ہو تی ہیں، اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمائے،آمین