"کرونا کی دوسری لہر : تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ درست یا غلط" 79

“کرونا کی دوسری لہر : تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ درست یا غلط”

“کرونا کی دوسری لہر : تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ درست یا غلط”

کومل شہزادی
کرونا جیسی عالمی وبا جس سے کوئی بھی ناآشنا نہیں جو اس سال کے آغاز سے ہی زندگی کے تمام شعبہ جات سے لے کر ہر چھوٹے سے بڑے کی زندگی میں خلل ڈال چکی ہے- جس کا خمیازہ آنے والے کئی سالوں تک ہمیں بگھٹنا پڑے گا- اس سے محض کوئی ایک ملک نہیں بلکہ پوری دنیا ہی دوچار ہے -وبا نے زور پکڑا تو تمام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی لیکن کچھ احتیاطی تدابیر سے کافی حد تک اس کی روک تھام کی گئی جس سے زندگی میں بہار کی ایک لہر آئی تو سب کام پھر سے معمول کے مطابق ہونے شروع ہوۓ جو سب اس وبا نے بند کر رکھے تھے-لیکن اس وبا کی یہ دوسری لہر پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی اور ہر کوئی پھر سے اس سے کی لپیٹ میں آنا شروع ہوگیا-اب اس وبا کی دوسری لہر کب تک منڈلاتی ہے

یہ تو کوئی بھی واقف نہیں لیکن کرونا وائرس کی دوسری لہر کافی حد تک لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔دن بہ دن کرونا کیسز میں تیزی سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے اس سےجس شعبہ میں نقصان سب سے زیادہ ہورہا ہے وہ تعلیمی شعبہ جات ہیں-پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث مریضوں کی تعدا د میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ ہوا-کستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر ملک میں تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے

۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پیر کو صوبائی وزرا کے ساتھ اجلاس کے بعد تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ملک کے تمام تعلیمی ادارے 26 نومبر سے 24 دسمبر تک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے تاہم اس دوران آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری رہے گا۔شفقت محمود نے مزید کہا کہ 25 دسمبر سے دس جنوری تک تمام تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی مکمل تعطیلات ہوں گی۔ بند کیے جانے والے تعلیمی اداروں میں یونیورسٹی، کالج، سکول، ٹیوشن سینٹرز شامل ہیں۔وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ حالات بہتر ہونے کی صورت میں گیارہ جنوری سے سکول کھول دیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سکولوں کو چھ ماہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا جس سے پورے پاکستان میں‌بچوں کی تعلیم کا حرج ہوا تھا-پاکستان کی اکثریت غریب اور کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ ان کے بچوں کو آن لائن تعلیم، واٹس ایپ کے ذریعے تعلیم یا ٹیوشن کی سہولت کس حد تک میسر ہے۔ سکول بند ہوں گے تو ان بچوں کا کیابنے گا-اب ایک طرف دیکھا جاۓ تو بچوں کی صحت پہلے ہے لیکن کیا کرونا محض تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہے کہ جب بھی اس پر احتیاط کرنے کا تذکرہ آتا ہےتو پہلے تعلیمی ادارے بند ہونے کی بات ہوتی ہے-یہ فیصلہ اگر درست تناظر میں دیکھا جاۓ

تو غلط ہے-تمام ہوٹلز ٫بازار اور مالز وغیرہ میں اس کے خدشات زیادہ ہیں لیکن اُس پر عمل در آمد کروانے کی بجاۓ ہر بار تعلیمی ادارے بند کرنے پر کیوں بات آکر رکتی ہے-ہماریے ملک کی جو تعلیمی صورتحال ہے وہ پہلے ہی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے -باقی جو کسر باقی تھی وہ کرونا اور لاک ڈاٶن نے پوری کردی- تعلیمی ادارے بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے پوری دنیا اس سے نمٹ رہی ہے لیکن انہوں نے تعلیمی ادارے بند نہیں کیے بلکہ ایسے اقدامات کیے ہیں کہ نسل نو کا مستقبل برباد نہ ہو بلکہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ہے منقطع نہیں کیا-

پھر ہمارے ملک میں کرونا کا حل فقط تعلیمی ادارے بند کرنے پر آکر ہی کیوں رکتا ہے-ابھی کوئی بھی اس سے آشنا نہیں ہے کہ کرونا کی وبا کب تک ہمارے سروں پر منڈلاتی ہے تو کیا تب تک ہم اپنے بچوں کی تعلیم کا ضیاع کرتے رہیں گے-تعلیمی ادارے بند کرنا ایک غلط فیصلہ ہے جو آنے والے کئ سالوں تک اس کے آفٹر شاکس لگتے رہیں گے- ادارے بند کرنے کےعلاوہ بھی بہت سے حل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تعلیمی اداروں کو کھلا رکھا جاسکتا ہے اور اس وبا سے محفوظ بھی رہا جاسکتا ہے جیسے دوسرے ممالک رہ رہے ہیں-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں