عوام سیاست سے بیزار نظر آتے ہیں ! 83

عوام سیاست سے بیزار نظر آتے ہیں !

عوام سیاست سے بیزار نظر آتے ہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتوں کا نظریہ حصول کرسی اور لوٹ مار ہے، تاہم عوام کی خدمت، اُنہیں روزگار مہیا کرنے اور مہنگائی کا خاتمہ کرنے کے دعوئے کئے جاتے ہیں، عوام کیلئے نہایت مشکل امر ہے کہ وہ کس کی سنیں، کس پر یقین کریں،یہاں تو عوام کارہزنوں سے ہی واسطہ پڑ رہا ہے، عوام نے تمام سیاسی جماعتوں کو بار ہا اقتدار کے مواقع فراہم کیے، ،لیکن افسوس عوامی مسائل میں کمی نہ آسکی، اب تویہ عالم ہوگیا ہے

کہ عوام سیاسی قیادت کے رویوں سے مایوس اور بیزار نظر آتے ہیں ،وہ سیاسی قائدین کو ہی جمہوری نظام کیلئے خطرے کا باعث سمجھنے لگے ہیں۔پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں سے حکومت دبائو میں آئے نہ آئے، عوام دنوں پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،سیاسی قائدین کوعوام کا نام لیکر اپنا الو سیدھا کرنے کا رویہ ترک کر کے عوام کے مسائل کے تدارک کی جانب توجہ مرکوز کرنا ہو گی،عوام آزمائے ہوئوں کے احتجاجی جلسوں اور حکومتی دعوئوں سے تنگ آچکے ہیں،اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تا جارہا ہے ،اگر اپوزیشن اور حکومت نے وعدئوں اور دعوئوں کے سہارے وقت گزاری کرنے کی مذید کوشش جاری رکھی تو عوام دونوں کو ہی ا یوان اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھینکنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ملک کو کئی عشروں سے باری باری لوٹنے والے ناکام سیاستدانوں کا ٹولہ صرف اپنی کرپشن بچانے کیلئے اکھٹا ہو کر انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے،تاہم حکومت نے بھی پی ڈی ایم انتشار روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے۔حکومت کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باوجود پی ڈی ایم جلسوں کے انعقاد کیلئے کھلی چھٹی دینا اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے؟ اس کا ایک سیاسی فائدہ ضرور ہوا کہ کھلی چھٹی ملنے کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسے متاثر کن نہیں رہے ہیں ۔

پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف حکومت کوللکارنے اور ان کی مقبولیت میں کمی ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں، شاید اس ناکامی کی بڑی وجہ کورونا کے پھیلائو سے خود کو بچانے کی فکر غالب رہی ہو، تاہم وجوہات کچھ بھی ہوں، پی ڈی ایم کے جلسوں سے حکومت کا دبائو میں نہ آنا لمحہ فکریہ ہے۔اسی لیے پی ڈی ایم خفت مٹانے کیلئے مذید جلسے کرنے پر بضد ہے کہ کسی بھی طرح حکومت کو دبائو میں لا یا جائے ،مگر حکومت کمزور ہو نے کی بجائے مضبوط ہو تی نظر آرہی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن کسی صورت ہار ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
در حقیقت مولانا فضل الرحمن حکومت کیخلاف اپنا سب کچھ دائو پر لگاچکے ہیں اور ان کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں، شاید اسی لئے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے فتوئے دینے سے بھی دریغ نہیں کررہے، اُن کی نظر میں تمام مسائل کا واحد حل حکومت کی رخصتی ہے،پی ڈی ایم قیادت کو عوام کی نہیں ،فوری حصول اقتدار کی فکر کھائے جارہی ہے، اسی لیے کورونا کے پھیلائو کے عالم میں بھی پی ڈی ایم نے جلسوں پر جلسے کی جو رٹ لگا رکھی ہے،

وہ کورونا کے پھیلائو میں مدد گار فعل ہے، اس پر جتنا جلد نظر ثانی کی جائے اتنا ہی بہتر ہوگا،مگر پی ڈی ایم کو عوامی مفاد کی بجائے اپنا مفاد عزیز ہے ،اگر آئندہ ہفتہ عشرہ میں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ریکارڈ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار صرف پی ڈی ایم قیادت پر نہیں ،بلکہ حکومت بھی برابر کی شریک کار ہو گی۔ حکومت نے پی ڈی ایم کی بلااجازت جلسے کا انعقاد ہونے میں انتظامی رکاوٹ نہ ڈال کر سیاسی مقاصد تو حاصل کرلئے ہیں،

لیکن کورونا کے ممکنہ پھیلائو میں اضافے کی صورت میں بری الذمہ نہیں ہو سکتی، کیونکہ حکومت نے بھی اپنے سیاسی مفاد کے پیش نظر سیاسی جلسے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکو مت نہ اپوزیشن کی اجازت سے اقتدار پر مسلط ہے اور نہ ہی جلسوں کے ذریعے جائے گی۔ حکومت جانے اور آنے کے تمام لوازمات سے مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری اور میاں نواز شریف اچھی طرح واقف ہیں۔اگر حکومت کو اپنی خواہشات کی تکمیل میں مدت پوری کرنے سے پہلے کان سے پکڑ کر نکال دیا گیا تو
اس خلا کو کس طرح پُر کیا جائے گا۔ کیاپی ڈی ایم کو ئی عبوری حکومت بنانے کے خواہشمند ہے یا تیسر ی قوت کو اقتدار سونپنے کے حامی ہیں۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ اپوزیشن قیادت صبر سے کام لے اور اپنی باری کا انتظار کرے۔حکومت اور اپوزیشن تصادم میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے ، اس وقت عوامی مفاد سب سے اولین ترجیح کورونا وبا پر قابو پانا ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحے پرہونا چاہیے، اس حوالے سے حکومت کوقدم آگے بڑھنا چاہیے،

کیونکہ اس وقت تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود معیشت کی حالت پتلی ہے اور ملک مزید اقتصادی بدحالی کا متحمل نہیں ہو سکتا ،یہ وقت محاذآرائی کا نہیں ،باہمی اتحاد کا ہے ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے تعاون اور بقائے باہمی کے تحت آگے بڑھنا چاہیے۔حکومت انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے اپوزیشن کی جائز شکایات دور کرے، اس کے لیے بڑادل دکھانا پڑے گا ،اس کا مظاہرہ کرنے کیلئے فریقین میں فقدان ہے ، اسی لیے عوام سیاسی قیادت سے بیزار نظر آتے ہیں،یہ صورت حال کسی بھی طریقے سے حوصلہ افزانہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں