سیاست عوام کی زندگی سے اہم نہیں !
تحریر:شاہد ند یم احمد
عالمی و ملکی سطح پر کورونا کی لہرمیں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے،متاثر ہ مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث ایک ہی روز میں 59 افراد وفات پا گئے ہیں، جبکہ 3 ہزار سے زاید نئے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے،دوسری طرف حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جلوسوں اور جلسوں کے انعقاد کے بارے میں اختلاف رائے ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کورونا سے پیش آنے والی صورت حال کے بارے میں پارلیمانی قائدین کا اجلاس طلب کیا تھا، لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے شرکت نہیں کی ہے۔اپوزیشن احتجاجی جلسے کرنے پر بضد ہے ،جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ جلسوں سے کورونا میں اضافے کے خدشات ہیں،
عوام جو آج تک بنیادی سہولیات سے محروم رہتے آئے ہیں، اس عوام کے بارے میں سیاسی قائدین صاف الفاظ میںکہتے تو نہیں، مگرسمجھتے یہی ہیں کہ عوام کا کام ہمیں ووٹ دینا اور ہمارے لیے نعرے لگانا ہے ،چو نکہ سیاسی قیادت کے خلاف کبھی کوئی عوامی بغاوت نہیں ہوئی، اس لیے سمجھنے لگے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوجائیں،مگر عوام کا فرض ہے کہ احتجاجی جلسوں میں شرکت کریں ، اس کی وجہ سے بھلے کورونا کا شکار ہوجائیں ،بلاول بھٹو زرداری خود کورونا سے متاثر ہونے کے باوجود عوام کو جلسوں میں بھر پور شرکت پر زور دے رہے ہیں، کیا یہ سیاست کا عوام دشمن اور شرمناک تصور نہیں ہے؟
اس میں شک نہیں کہ اس بارکورونا کا وار زیادہ کاری ہے ، حکومت اَڑ گئی ہے کہ کورونا کی لہر شدت سے پھیل رہی ہے، اس لیے ایس او پیز کے بغیر جلسوں کی اجازت نہیں دے گی۔ ظاہر ہے کہ جلسوں میں ایس او پیز کی پابندی کون کرتا ہے؟ نہ لوگ ماسک پہنتے ہیں اور نہ ہی سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہی ممکن ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم قیادت بھی ساری باتیں تسلیم کرتی ہے، لیکن اس وقت حکومت کے خلاف عوامی بیداری کی لہر کو کیش نہ کرانا حماقت ہو گی،
مولانا فضل الرحمن نکتہ طراز سیاستدان ہیں، انہوں نے کورونا وبا کی صورت حال سے نکتہ نکالاہے کہ کووڈ 19 سے زیادہ خطرناک کووڈ 18 ہے، اگر اس کا صفایا ہوگیا تو کووڈ 19 اپنی موت آپ مرجائے گا۔ کووڈ 18 سے مراد عمران خان ہیں کہ جو بری طرح اپوزیشن کے پیچھے پڑے ہیں اور بار بار اعلان کررہے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے، این آر او نہیں دیں گے،جبکہ مسلم لیگ (ن) نے جوابی وار کرتے ہوئے کہناہے کہ ہم سے اُمید لگانے والوں کو این آر او کسی صورت نہیں ملے گا۔ این آر او کون کسے دیگا یا نہیں، یہ معما عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ہماری سیاست میں ساری گہما گہمی اسی این آر او کی وجہ سے ہی لگی ہوئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کی بجائے اپنے مفادات کے حصول اور خود کو بچانے کیلئے سراپہ احتجاج ہیں،لیکن اس احتجاج میں عوام کی زندگی کو دائو پر لگایا جارہا ہے ،حکومت اور اپوزیشن کوئی درمیانی راستہ نکالنے کیلئے تیار نہیں ہیں،پی ڈی ایم کی طویل گہما گہمی ایک ایسا موقع ضرور آیا تھا
کہ جب سابق وزیراعظم کی جانشین مریم صفدر نے اپنے انٹرویو میں باقاعدہ مقتدرہ کومذاکرات اور مفاہمت کی پیش کش کی تھی اور یہ افواہیں اُڑ نے گئی تھیں کہ اندر خانہ معاملات طے پارہے ہیں، لیکن قدرت کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں ،ایک ذرا سی بات سے پانسا پلٹ جاتاہے۔ ابھی مریم صفدر کی باتوں کی گونج فضا میں ہی موجود تھی کہ بازی اُلٹ گئی اور مکالمے اور مفاہمت کا سارا سحر آن واحد میں ٹوٹ گیا،کیو نکہ مریم نواز کو میاں نواز شریف کا تھوکا چاٹنا پرگیا تھا۔ سیاست میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں، سیاست مین اسے یوٹرن کا پُرفریب نام دیا گیاہے۔
مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی اپنے مفاد کے حصول میں جتنے مرضی یو ٹرن لینے کی کوشش کریں ،مگرمولانا فضل الرحمن کسی صورت مفاہمت ومکالمے کیلئے تیار نہیں ،
کیو نکہ ان کی سیاسی بقاء احتجاجی تحریک سے جڑی ہے ،مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کچھ سیاست دانوں کی رائے ہے کہ ایک زیرک سیاست دان ہے،جبکہ اکثریت کا خیال ہے کہ انھوں نے کبھی سیاست کی ہی نہیں، بلکہ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد سے ایک ہی اصول اپنا یا کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنے پر حکومت کا حصہ بنا جائے ،گزشتہ انتخابات کے بعد سے ہی ان کا سیاسی امتحان تھا کہ جس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ پہلے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر رہی سہی کسر پوری کردی اور پھر اسلام آباد پر یلغار کے بعد پسپائی نے ان کی دانشمندی کا بھانڈا پھوڑدیا ہے۔
اگر زیرک سیاست دان ہوتے تو پی ڈی ایم کی سربراہی کبھی قبول نہیں کرتے ،کیو نکہ یہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی لڑائی ہے،اس لڑائی میں جیت یا ہار سے مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
پی ڈی ایم کی سیاست حصول اقتدار اور اپنے مفاد میں عوام کابہیمانہ انداز سے استعمال کرنا ہے،یہ کورونا کی اٹھتی ہوئی آندھی میں غریب عوام کو نہیں کہتے کہ آپ اپنے غریب خاندانوں کا سہارا ہو، اپنی صحت کا خیال رکھو،سیاسی اجتماعات سے گریز کرو، سیاست تو چلتی رہے گی، مگر انسان کی زندگی سب سے زیادہ اہم ہے ،ایسی کوئی بات نہیں کی جارہی ،بلکہ عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع گنوایا نہیں جارہا ہے ۔ملک کی سیاسی قیادت سے کورونا کے بارے میں بات کی جائے
توعوام کو شعور دینے اور انہیں احتیاط کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کوکورونا کہہ کر مذاق اُڑاتے ہیں، ایسے بیانات سے کیا حاصل ہوگا،کیا ایسے بیانات دینا عوام کوکو کورونا کی آگ میں دھکیلنے کی سازش نہیںہے ؟سیاست انسانیت کی مددگار اور ساتھی ہونی چاہئے، لیکن سیاست جب عوام کو دھوکہ دینے اور انہیں امراض کے مقتل میں دھکیلنے کا نام بن جائے تو ایسی سیاست سے عوامی بھلائی کو نسی توقع رکھی جا سکتی ہے۔