پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کا اسلام آباد دھرنا دمادم مست قلندر 86

آئی جی پی خیبرپختونخواء کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے

آئی جی پی خیبرپختونخواء کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
آج سوشل میڈیا پر محمدصدیق ساگر کی ایک رپورٹ پڑا جس کے مطابق خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت معتدد اضلاع کے تھانوں سے مبینہ طور پر مال مقدمہ گاڑیوں کے قیمتی پارٹس کی بڑے پیمانے پر چوری کاا نکشاف ہوا ہے محمدصدیق ساگر نے اپنے رپورٹ میں آئی جی پی خیبر پختونخوا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنے رپورٹ میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ثناءاللہ صاحب کی اس سلسلے میں پراسرار خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے

جبکہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت معتدد اضلاع کے تھانوں میں کھڑی مال مقدمہ گاڑیوں سے مبینہ طور پر قیمتی پرزہ جات سمیت انجن تک چراکر بیچ دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس میں کئی افسران بھی ملوث پائے جانے کا امکان ہے یہاں تک کہ گاڑی کا صرف ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے جو کہ بعض اوقات یہ ڈھانچہ بھی کباڑیوں کو اونے پونے فروخت کردیا جاتا ہے‘جن میں زیادہ تر لاوارث گاڑیاں ہوتی ہیں‘جن کو متعلقہ پولیس افسران اور ماتحت خوب استعمال کرتے ہیں اور جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے‘تو تھانوں میں کھڑی کر دیتے ہیں

جن سے بعد میں آہستہ آہستہ ایک ایک پرزہ اور قیمتی پارٹس چوری کرکے فروخت کر دیتے ہیں‘ رپورٹ میں آگے نہایت ہی ایک اہم بات لکھتے ہیں کہ صوبے کے آئی جی پی کو مختلف ذرائع سے اس بارے میں آگاہی بھی دی گئی ہے جس پر انہوں نے کئی بار انکوائریاں کرنے کے احکامات جاری کئے مگر اس کے بعد موڑ کرپوچھا نہیں جاتا اور سی پی او میں بیٹھے بعض افسران بالا اس انکوائریوں کو کھڈے لائن لگا کر آئی جی پی کی نظروں میں دھول جھونک کر دبا دیتے ہیں‘اور آئی جی پی بھی احکامات کے بعد شائد بھول جاتے ہیں‘یا پھر آنکھیں پھیر لیتے ہیں‘یہی وجہ ہے

کہ قیمتی گاڑیوں کے پارٹس کی چوری کا سلسلہ تاحال جاری ہے‘جن کی مثال خیبر پختونخوا کے کسی بھی تھانے میں موجود مال مقدمہ گاڑیوں کو دیکھنے کے بعد ہوجاتی ہیں‘پولیس اہلکاربڑی ڈھٹائی سے ان گاڑیوں کے پارٹس فروخت کرنے میں مصروف نظر آتے ہے‘ان میں اکثر گاڑیوں کے نام ونشان تک مٹ گئے ہیں‘اگر یہی سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو مال مقدمہ میں بچی کھچی قیمتی گاڑیاں آخرکار بلکل ہی منظر سے غائب ہوجائیں گے لہذاء محمدصدیق ساگر کی رپورٹ پر عوامی حلقوں نے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت نیب اور دوسرے اداروں کو بھی اس معاملے پر غور ضرور کرنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں