صنعتی عمل کو جدید بنانے کی ضرورت
مقصود انجم کمبوہ
یورپی سائنسدانوں اور فنی محققوں نے آج تک جو تحقیق و تخلیق کی ہے وہ در اصل مسلمانوں کے ہی فارمولوں ، کُلیوں اور اصولوں کی مرہونِ منت ہے یہ الگ بات ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان خود کو بجائے تحقیقی و تخلیقی سر گرمیوں میں مصروف رکھ کر کوئی تاریخی کارنامہ سر انجام دیتے آپس میں تفرقات و تنازعات ان کی عادت بن گئی ہے ہوا یہ کہ غیران کے تحقیقی فارمولوں اورکُلیوں سے اپنی لیبارٹری کو گرماتے اورصنعتی دنیا روشن کرتے رہے آج حالت یہ ہے کہ مسلمان غیروں کی تحقیق و تخلیق کو چُرانے اور خریدنے کی ناکام کوششوں میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر گدا گروں کی طرح بھیک مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے سد افسوس جو انہیں پیسوں سے بھی حاصل نہیں ہو پاتی
اس پر متزادیہ کہ جو ٹیکنالو جی مل جاتی ہے وہ صدیوں پُرانی اور زَنگ آلودہ ہوتی ہے جو نہ صرف دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق مسائل حل کرنے میں ممدو معاون نہیں ہوتی بلکہ غیروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے بھی قطعی قابل نہیں ہوتی اور پھر یہ اتنی مہنگی پڑتی ہے کہ اس کے فنی عمل کو رواں دواں رکھنے اور دیکھ بھال و مروت کے لئے اسپئیر پارٹس کی دستیابی و حصول کے لئے بھی کئی کئی طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں جس طرح کے آج کل وطن عزیز کو ایف 16کو رواں حالت میں رکھنے کے لئے مشکل آن پڑی ہے اور امریکہ ہماری بازیاں ہی نہیں
کھڑبازیاں لگوا رہاہے اور ہم شٹل کاک بنے اپنی مجبوریوں کی چَکی میں پِس رہے ہیں جس کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے زیادہ سے زیادہ سائنسدانوں ، انجینئروں اور فنی ماہروں کو یورپی یونیورسٹیوں ، اکیڈمیوں اور تحقیقی اداروں میں جدید تحقیق کے حصول کے لئے بھیجے مزید برآں یورپی ومغربی ممالک کے تحقیقی اداروں اور فرموں کے ساتھ مشترکہ تربیتی منصوبوں کے عمل کو فروغ دیا جائے جس طرح کہ جرمنی اورہالینڈ کے تعاون سے بعض تربیتی مراکز ہماری کئی ایک ضرتورتیں پوری کر رہے ہیں صنعتی عمل کو کامیابی کے ساتھ ہمکنار رکھنے اور مصنوعات کو معیاری بنانے کی مساعی ہی ہماری اصل اورآخری کامیابی و کامرانی ہے اس نہج پر سائنسی و ٹھقیقی
سرگرمیوں کو جتنا بھی فروغ حاصل ہو کم ہے مشاہدے میں آیا ہے کہ جرمنی اور ہالینڈ ہمارے کئی ایک صنعتی مقاصد کے حصول میں ہماری عملی مدد کر رہے ہیں اس طرح دیگر ممالک سے بھی رابطوں اور کوششوں کے عمل کو جاری و ساری رکھ کر ممکنہ اہداف و مقاصد پورے کیے جاسکتے ہیں بہتر یہ ہوگا کہ سفارت خانوں اور کونسل خانوں میں ایسے فنی ماہروں اور صنعتی تجربہ کاروں کا تقرر عمل میں لایا جائے جو اپنے ملک کی صنعتی مجبوریوں اور مشکلات سے بخوبی آگاہ ہوں سیاسی مصلحتوں کے تحت آج تک جو بھی اقدامات اُٹھائے گئے ہیں وہ وطن عزیز کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکے اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیوں اور وفا داریوں کی ضرورت ہے اور صرف ڈاکٹر قدیر خاں جیسے با صلاحیت اور اہل افراد ہی ملک کی تقدیر بدلنے کے کام آسکتے ہیں جرمنی ، جاپان ، ہالینڈ ، امریکہ ، روس ، چین ، فرانس ، برطانیہ اور کوریا کے علاوہ بھی کئی
ایسے ممالک ہیں جہاںتحقیقی و تخلیقی معیار حیران کُن ہے اور جن کے تعاون سے ہمارئے صنعتی میدان میں انقلاب بر پا ہو سکتا ہے ماہنامہ معلومات جرمنی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی اور جرمن سائنسدان مل کر پاکستانی سمندری حدود کے ڈھلوانوں میں تہہ نشین مادوں کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں سائنسدانوں کی اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کر نا ہے کہ گذشتہ بیس ہزار سالوں کے دوران عالمی آبو ہوا میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں اس مقصد کے لئے جرمنی کا بحری جہاز سون استعمال کیا جارہا ہے جو تحقیق کے لئے تما م ضروری اور جدید ترین سہولتوں اور حالات سے لیس ہے کرہ ارض پر کارخانوں اور صنعتوں وغیرہ سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ ، دیگر گیسوں اور کیمیائی مادوں کی وجہ سے گذشتہ پچاس برسوں میں ہماری زمین کے گرد تنی ہوئی حفاظتی تہہ اور زون کو نقصان پہنچا ہے اور اگر اس کی روک تھام کے لئے
احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئی تو زمین پر حرارت اور گرمی بڑھنے سے قطبین پر جمی برف پگھل کر سمندروں کی سطح پر بلند کر دے گی اس نوع کی صورتحال نے دنیا بھر کے ذمہ دار اور درد مند سائنسدانوں اور سیاست دانوں کو ہماری زمین کے مستقبل کے بارے میں فکر مند بنا دیا ہے اور انہوں نے یہ حقیقت سمجھ لی ہے کہ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کرہ ارض کی آب و ہوا اور موسمی کیفیات کیاہوں گی تواس کے لئے ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ گذشتہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال کے دوران زمین کیہ آب و ہوا کن کن تبدیلیوں سے گزری ہے اور اس بارے میں ریکارڈ کا بہترین مطالعہ سمندروں کی تہہ میں چھپے مادوں پر تحقیق کے ذریعے کیا جاسکتاہے اس ضمن میں پاکستانی سمندری علاقے الپائن جھیل اور ناروے کے ساحل کے علاوہ بعض دوسرے سمندروں میں بھی تحقیق جاری ہے اگر سمندری ڈھلوانوں پر پائے جانے والے مواد کی تہوں اور پرتوں کو اچھی طرح محفوظ کرلیا جائے تو انکی مدد سے مختلف اوقات اور زمانوں میں موسمی کیفیات اور تبدیلیوں کا سُراغ لگایا جاسکتا ہے دونوں ملکوں کے سائنسدانوں نے ساحل مکران ،سون میانی ، دریائے ہب اور دریائے سندھ کے دہانے اور ڈیلٹا کے علاقے کی ڈھلوانوں پر تہہ نشین کیچڑ اور موا د سے معلومات اخذ کی ہیں اس مواد کی تہوں کے مختلف رنگ مختلف تبدیلویوں اور کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں
مثلاً پاکستان کی بحری ڈھلوانوں میں 200سے 1300میٹر گہرائی میں آکسیجن کم ہوتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے تہہ میں بحری حیات کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں کسی جاندار کے نہ ہونے کے سبب کیچڑ اور مواد کی تہیں بالکل محفوظ اور اصل حالت میں ہیں اس منفرد صورتحال کا ایک سبب کائی کے ننھے منے ذرات کی غیر معمولی پیداوار ہے جو مون سون کی بارشوں کے پانی میں سطح زمین پر پیدا ہوتی ہے اور دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ سمند رمیں پہنچ کر تہہ نشین ہوتی ہے جرمن جہاز سون پر مصروف تحقیقی سائنسدانوں نے اور مارا اور سون میانی کے قریب ساحل مکران سے لے کر دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پاکستانی سمندر میں 100میٹر 3000میٹر گہرائی تک چار مقامات پر تفصیلی مطالعہ اور تحقیق کی ہے انہوں نے سمندر میں تہہ نشین موا دکی ایسی نمایاں اور واضح تہیں اورپَرتیں دریافت کی ہیں جن سے دینا کی آبو ہوا
میں تبدیلی کی کیفیات کے بارے میں ایسی معلو مات حاصل ہو سکیں گی جو اس سے پہلے انسان کے علم میں نہیں تھیں انہوں نے پاکستان کے مخصوص اقتصادی زون کی عمیق پیمائی یعنی گہرائی کی پیمائش ک یذریعے نقشے مرتب کیے ہیں جن میں بہت سی تفصیلات شامل ہیں سمندر کی گہرائی میں اس سروے کی ٹیلی وژن تصاویر بھی بنائی گئی ہیں سمند ر سے لے کر آکسیجن سے محروم گہرائی تک کے حصوںکی تصاویر بنائی گئی ہیں جن کی وجہ سے اس مہم کو پاکو من زون کا نام دیا گیا ہے یعنی پاکستان آکسیجن مئیمم اس کا مطلب ہے پاکستانی سمندر کا وہ انتہائی گہرا خطہ جہاں آکسیجن نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے پاکومن مہم جرمنی کے ارضی سائنسدان اور قدرتی وسائل کے وفاقی انسٹی ٹیوٹ بی جی آر ہینو ور اور کراچی میں پاکستان کے بحری علوم کے قومی ادارے کی مشترکہ کاوش ہے اس مہم کے لئے سرمایہ جرمنی کی تحقیق و ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت نے مہیا کیا ہے
ٹیم کے ارکان پاک بحریہ کے جنا ب صبور کے علاوہ پاکستان کے بحری علوم کے سائنسدان ڈاکٹر ایم انصاری میر طاہر اور جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی ہمبرگ یوش کیل اولڈ نبرگ اور کینیڈا کی وینکو ور یونیورسٹی سے 18سائنسدان اور فنی ماہر شامل ہیں اگر اس نوع کے امر کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ و مزاحمت کے جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے سائنسدان اور فنی ماہر اپنے تئیں اپنے ملک کے بیشتر مسائل از خود حل کرنے کے قابل ہوجا ئیں گے ۔ حکومت کو چاہیے کہ تربیتی مقصد کے لئے متعلقہ افراد کو ہی باہر بھیجا جائے مشاہدے میں آیا ہے کہ فنی ماہروں کی جگہ بیورو کریٹس یا عام افسران اپنے اختیارات کو استعمال میں لاکر مغرب و یورپ کی تفریح کا بندو بست کرلیتے ہیں اس طرح نہ صرف ملک و قوم کی دولت ضائع ہوتی ہے
بلکہ اصل مقا صد حاصل نہیں ہوپاتے مزید یہ کہ صنعتی امور طے کرنے یا مشینری کی خریدداری کے لئے جانے والے وفود میں بھی انجینئرز یا فنی ماہر ہونے چاہئیں تاکہ صحیح اور درست مشینری کی خریداری ممکن ہوسکے مشینر ی خریدنے سے پہلے ایسی مشینری کی تنصیب و مرمت کے لئے مقرر کردہ عملے کی عملی تربیت کا بھی فوری بندوبست ہونا چاہئیے ورنہ گورے انجینئروں کی جگہ شیر فروشوں کو بھیج کر نہ صرف ہماری دولت سے کھیلتے ہیں بلکہ مشینری کی صحیح تنصیب و مرمت کا کام بھی تسلی بخش نہیں ہو پاتا جو بعد ازاں ہمیشہ کے لئے ہمارے فنی ماہروں اور مستریون کے لئے دردِ سر بنا رہتا ہے ۔