احساس کمتری ایک کینسر 107

احساس کمتری ایک کینسر

احساس کمتری ایک کینسر

حنا وہاب کراچی
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ہماری جسمانی بناوٹ اور شکل و صورت ہمیں دوسروں سے جدا کرتی ہے۔شکلوں اور دماغی صلاحیتوں میں مماثلت شاید بیزاری اور بے توجہی کا باعث بن جاتی اسی لیے اس نظام زندگی کو چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صفات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی خوبی کے ساتھ نہ پیدا کیا ہو۔یہ اللہ تعالیٰ کی شاہکار کمالات میں سے بھی ہے کہ وہ اپنے بندوں میں بہترین صلاحیتیں عطا کرتا ہے کہ انسان تخلیقی،معاشرتی اور معاشی ترقیوں کی منازل طے کرتا ہے۔

کسی کی صلاحیتوں کو دیکھ کر دل میں یہ خیال لانا کہ وہ مجھ سے بہتر کیسے ہے اور میں کیوں نہیں ہوں۔ تو یقیناً ہمیں اس گڑھے کی طرف لے جائے گا جو کہ مایوسی اور پریشانی کا باعث ہو گی۔احساس یعنی محسوس کرنا اور کمتری یا برتری مراد اوپر یا نیچے (اچھا یا برا) محسوس کرنا۔ اصل میں ہمارے اندر جو صلاحیت ہے وہ کسی دوسرے میں نہیں ہوگی۔اور دوسرے کے اندر کی صلاحیت ہم میں نہیں۔
ایک شخص جو باغبانی میں ماہر ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہم میں نہ ہوں اور اگر ہم کوئی اور کام کرتے ہیں تو دوسروں میں وہ نہیں ہے۔اصل میں احساس کمتری انسان کے اندر وہ جلن ہے جو اسے دوسروں سے کم محسوس کرنے پر اکساتی ہے اور وہ اس حسد اور جلن کی آگ میں خود کو تباہی کر لیتا ہے۔
احساس کمتری کب ہوتی ہے،جب انسان دوسروں کو تسلیم نہیں کرتا، جب ہم نہیں پسند کرتے کہ کوئی ہم سے آگے بڑھے۔ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صفات کے ساتھ پیدا کیا ہے ہم کوئی وردی چڑھے ایک دماغ کے مخلوق نہیں ہیں۔یہ تو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلوق بنایا ہے جو صرف اس کی عبادت کے لیے مختص ہے یا کچھ فرائض ان کے سپرد ہیں مگر انسان مکمل صلاحیتوں اور آزادی کے ساتھ سب کچھ کرنے پر کاربند ہے۔

یہ احساس کمتری بڑھتے بڑھتے ہمیں اس طرف لے جاتی ہے جسے ہم عرف عام میں ڈپریشن کہتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی کی گئی تقسیم پر راضی نہیں ہیں یا پھر ہم جستجو نہیں کر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خاص دیا ہے میں اس کو سمجھوں اور اسے ہی اپنے لیے پہچان کی راہ بنا لوں۔ احساس کمتری پیدا ہی جب ہوتی ہے جب ہم حالات اور واقعات میں خود کو پست سمجھتے ہیں۔

اس میں ہماری اپنی ذات کے علاؤہ اور بھی عناصر کارفرما ہو سکتے ہیں جیسے ہمارے اردگرد رہنے والے لوگ جو ہمیں اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہم خود کو گیا گزرا سمجھیں۔جیسے کہ ایک عورت اگر بیٹی کو جنم دے کے تو ہمارا یہ نام نہاد آزاد معاشرہ اس کو طعنے طعنے دے دے کر ذلیل کر دے گا کہ وہ تو لڑکا نہیں پیدا کر سکتی اور اسی طرح ہم ہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بیٹے والی ماؤں کے دماغ خراب کیے ہیں جو بعد میں اپنی بہوؤں پر ظلم کر تی ہیں۔
اس کی دوسری مثال ایک ہی گھر میں رہنے والے دو بچے یا کوئی سے بھی دو فرد ہیں جو کہ مختلف کما سکتے ہیں اگر بچوں میں ہو تو ذہنی استعداد کے حساب سے مختلف ہو نگے۔مھر ہم والدین اور گھر والے ہی ان کو برا بھلا کہہ کہہ کر ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ وہ دوسروں سے شکل صورت، ذہنی صلاحیتوں اور کمالات میں کم ہو حتی کہ ہم کمانے والے مردوں کو بھی نہیں چھوڑتے کہ انھیں یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ دوسرے ان سے بہتر کماتے ہیں۔

کہنے والا کبھی نہیں سوچتا کہ وہ دوسرے کے دماغ میں کیا بیج بو رہا ہے۔وہ دوسرے کو اپنے الفاظ سے جینے کی جہت بھی دے سکتا ہے اور مرنے کے لیے راستہ بھی۔ احساس کمتری بڑھتے بڑھتے انسان کو ڈر اور خوف کی اس وادی میں دھکیل دیتا ہے کہ کس میں انسان خود پر اعتبار اور یقین کرنا چھوڑ دیتا ہے۔یہ اعتماد اور ہمت ہوتی ہے کہ کس میں ہم کچھ کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔

ایک چھوٹے بچے کو اس کے والدین ہمت ہی تو دیتے ہیں جو وہ اپنا پہلا قدم بڑھاتا ہے ایک بچہ جب کبھی گر جائے تو ساتھ والے اڈے اٹھا کر ہمت دکھاتے ہیں کہ اب کی بار بھی تم چل سکتے ہو،اگے بڑھ سکتے ہو۔ہم کوئی سہارا اڈے دیتے ہیں نہ کہ اس کے پاس موجود سہارے کو کھینچ لیتے ہیں۔ اس سے اس کی ہمت بڑھتی ہے۔

مگر احساس کمتری کا شکار آدمی اس حد تک خود کو تباہی کر چکا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کی صلاحیتیں کو کہ ہو سکتا ہے کہ دوسروں سے بہتر ہوں مگر وہ ان کو تباہی کر بیٹھتا ہے اور آخر میں یہ ایک کینسر کی طرح اس کی صلاحیتوں کو کھا جاتا ہے۔

اس کینسر کی شناخت جلد ہی ہو سکتی ہے جیسے کہ جب کوئی خود پر سے اعتماد کھونے لگے،دوسرون کی ترقی کو دیکھ کر حسد کرنے لگے مگر خود کچھ نہ کر پائے،خاندان کے طعنے،ہر وقت کی ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ،دوڈروں کے سامنے بچوں کو ذلیل کرنا ان کی عزت نفس کو پامال کرتے رہنا۔یہ سب چیزیں ہیں نہ کہیں تحت الشعور میں بس جاتیں ہیں اور دوسرے کو کمزور کر دیتی ہیں۔

ہمارے تو مذہب نے ہمیں کسی کا مذاق اڑانے سے منع کیا ہے

سورۃ الحجرات – آیت نمبر11
اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔
تاکہ دوسرے کی عزت نفس مجروح نہ ہو جائے اور اسے احساس کمتری نہ ہو۔اور وہ بھی ترقی کرئے نہ کہ وہ راستے کی سختیوں میں سلجھ جائے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کی مدد کے لیے پیدا کیا ہے۔مگر ہم تو ایک دوسرے کو ہی کاٹ رہے ہیں۔

اس کا حل یہی ہے سکولوں اور گھروں میں ہونے والی بدتمیزیاں جسے ہم انگلش میں bullyingکہتے ہیں اس کو روکے اور کسی کو احساس کمتری میں نہ مبتلا ہونے دیں۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم مذاق اڑاتے اڑاتے اس حد سے باہر نکل جاتے ہیں کہ دوسرا تو کمتر ہے اس سے رک جائیں۔ یہ نہ ہو کہ یہ دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔
اس کینسر بسے عموماً لوگ خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر اس کے ذریعے سے ہکلاہٹ بھی پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ انسان کے اعصاب پر بیت ڈی چیزیں اثرانداز ہوتی ہیں۔

خدارا ہم رک جائیں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں کوئی گر رہا ہے تو سے اٹھائیں۔اپنے بچوں کے اندر رسمی تعلیم کے علاؤہ جو خوبیوں سے روشناس کروائیں۔ تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقیاں کریں۔ہر شخص مختلف اور منفرد سوچ اور تخلیق پر پیدا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں