’’سیالکوٹ موٹر وے واقعہ اور اینٹی ریپ آرڈیننس‘‘ 97

’’قومی آواز حکومتی نشانے پر‘‘

’’قومی آواز حکومتی نشانے پر‘‘

اسلام آباد کا ڈی چوک ملک میں دھرنوں کا مرکز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پاکستان میں کوئی ایسی بڑی سیاسی جماعت یا تنظیم نہیں جس نے احتجاج کیا ہو یا احتجاجی تحریک چلائی ہو تو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا نہ دیا ہو، اسلام آباد کے باسیوں نے تو اس چوک کا نام اب ’’دھرنا چوک‘‘ رکھ دیا ہے، کیونکہ کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی یا سرکاری ملازمین کی تنظیم وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے ڈی چوک کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ 21 اکتوبر سے ریڈیو پاکستان کے بیک جنبش قلم برطرف کیے گئے 1020 کنٹریکٹ ملازمین ڈی چوک میں جلسے، جلوس، مظاہرے کر رہے تھے، اس دوران گاہے بگاہے ہونے والے حکومتی وفود سے مظاہرین کے مذاکرات ناکام ٹھہرے، 10 نومبر کو سی بی اے یونین ریڈیو پاکستان کے وفد جس کی

قیادت محمد اعجاز اور حکومتی وفد جس میں وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز، ڈی جی ریڈیو پاکستان عنبرین جان،ڈائریکٹر فنانس ریڈیو پاکستان سید رضا نقوی شامل تھے کے مابین مذاکرات ہوئے، جس میں حکومتی وفد کو باور کرایا گیا کہ کنٹریکٹ ملازمین ریڈیو پاکستان پر سالانہ سوا ارب روپے کے خسارے کا باعث نہیں ہیں، یہ ریڈیو پاکستان میں سابقہ سیاسی ادوار میں سیاسی طور پر بھاری تنخواہوں پر بھرتی ہو کر ریڈیو پاکستان کو کھوکھلا کرنے والے افسران کا پروپیگنڈا ہے، ملک بھر کے ریڈیو سٹیشنز پر کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کا بجٹ کل 18کروڑ روپے ہے،

جبکہ تین ماہ کی تنخواہیں بھی ادارہ کے ذمہ ہیں، جس کے متبادل یہ ملازمین ریڈیو پاکستان کے لئے بزنس کی مد میں اتنی رقم کے لگ بھگ کما کر ریڈیو پاکستان کو دیتے ہیں، سوا ارب روپے کا خسارہ کنٹریکٹ ملازمین کے کھاتے میں ڈالنے والے در اصل سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے جو ریڈیو پاکستان پر بوجھ ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لے رہے ہیں کا پروپیگنڈا ہے، جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ نکالے گئے 1020 ملازمین میں سے کوئی بھی 25 ہزار سے زائد تنخواہ نہیں لے رہا، سی بی اے یونین کے وفد کا موقف سننے کے بعد حکومتی وفد جس کی قیادت وفاقی وزیر شبلی فراز کر رہے تھے نے کنٹریکٹ ملازمین کی نمائندہ تنظیم کو تسلی دیتے ہوئے یقین دلایا کہ حکومت اس مسئلہ کا حل نکالے گی،

اس یقین دہانی پر مظاہرین نے اگلے روز وزیر اعظم ہائوس کے سامنے احتجاج موخر کیا تو حکومتی وفد نے بھی حسب سابق چپ سادھ لی تو برطرف کیے گئے ملازمین نے 24 نومبر کو دوبارہ ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کیا اور دھرنا دیا، مظاہرین وزیر اعظم ہائوس کی طرف روانہ ہوئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین کو قوت کا استعمال کر کے وزیر اعظم ہائوس کی طرف جانے سے روک دیا اور اسلام آباد انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ مسئلہ کا پر امن حل نکالا جائے گا اور مذاکرات دوبارہ کیے جائیں گے، جس پر ریڈیو پاکستان کی سی بی اے یونین نے تین رکنی مذاکراتی کمیٹی جس میں سید طاہر شاہ بخاری، علی بخش مری، ارشد محمود شامل تھے تشکیل دی، اس وفد نے اسلام آباد انتظامیہ کے

افسران کے ہمراہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات زاہدہ پروین سے ملاقات کر کے انہیں حالات سے آگاہ کیا، جس پر اس وقت نئی تعینات ہونے والی وفاقی سیکرٹری انفارمیشن نے ریڈیو پاکستان کے برطرف کیے گئے کنٹریکٹ ملازمین کے حقائق جاننے کے بعد انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ (وفاقی سیکرٹری اطلاعات) آج شام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سے ہنگامی میٹنگ کر کے مسئلہ حل کروانے کیلئے لائحہ عمل مرتب کریں گی، یہ خبر کنٹریکٹ ملازمین اور ان کے اہل خانہ کیلئے عید کی خوشیوں سے کم نہ تھی، لیکن کنٹریکٹ ملازمین کو کیا پتہ تھا کہ یہ بھی انہیں طفل تسلی ہے،

بقول کنٹریکٹ ملازمین کے نمائندہ وفد 24 نومبر سے وفاقی سیکرٹری اطلاعات سے رابطہ کی کوشش کر رہے ہیں مگر وفاقی سیکرٹری اطلاعات ملاقات کرنے سے ہی گریزاں ہیں اور برطرف کیے گئے کنٹریکٹ ملازمین ریاست مدینہ کے دعویداروں کی طرف نظریں جمائے دیکھ رہے ہیں، ریڈیو پاکستان میں سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے ایک مخصوص گروہ نے انکا روزگار چھین کر انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ (ریڈیو پاکستان کے برطرف کیے گئے 1020 ملازمین) دوبارہ ڈی چوک میں دھرنا دیں اور تا دم مرگ بھوک ہڑتال کریں۔ یہ تو سرکاری ریڈیو پاکستان کا حال ہے یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں چلنے والے ( آواز گروپ آف ریڈیو ) ایف ایم پرائیویٹ ریڈیو سٹیشنز کو بھی بھاری فیسیں جمع کروانے کا نوٹس دے دیا ہے

اور فیسیں جمع نہ کروانے کی صورت میں پرائیویٹ ریڈیو بند کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سینکڑوں پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشنز پر کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کے بیروزگار ہونے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے، کپتان جی آپ نے تو ایک کروڑ ملازمتیں دینے اور ہر بے گھر کو چھت دینے کا اعلان کیا تھا، کپتان جی آپ کے دعوئوں کے برعکس یہ کیا ہو رہا ہے، یہاں تو پہلے ریڈیو پاکستان، پھر پاکستان سٹیل مل سمیت آئے روز کسی نہ کسی محکمے کے کنٹریکٹ ملازمین کو بیروزگار کیا جا رہا ہے، آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ اس صورتحال نے تو ملک میں خود کشیوں میں اضافہ کر دیا ہے، آئے روز پورے پورے کنبے کی خود کشی کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں، کپتان جی آپ کو اس معاملے کا خود نوٹس لینا چاہئے

اور بیروزگار کیے جانے والے ملازمین کو بحال کرنے یا متبادل روزگار کی فراہمی آپ پر فرض ہے کیونکہ آپ وقت کے حکمران ہیں، اور اگر آپ کے دور میں کوئی انسان بھوکا مر گیا تو اس کا حساب آپ کو دینا ہو گا؟کپتان جی آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ کچھ روز قبل انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں ریڈیو پاکستان کے پروپیگنڈا سے بہت تنگ ہوں، انڈیا میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کو خوش کرنے کیلئے بیان دیتے ہیں جس سے وہ انڈیا کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کے بیانات وہی ہیں جو پاکستان کی

پارلیمنٹ اور ریڈیو پاکستان کے ہیں۔ نریندر مودی کی اس تقریر کے بعد کہ وہ ریڈیو پاکستان سے کشمیر کاز پر نشر ہونے والے پروگراموں اور تبصروں سے تنگ ہیں اچانک راولپنڈی تھری ریڈیو پاکستان (تراڑ کھل) کو بند کر دیا گیا، جس سے کشمیریوں کی آواز د ب گئی، اور ان کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کپتان جی آپکو اس کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ مودی کی تقریر کے بعد راولپنڈی تھری ریڈیو پاکستان (تراڑ کھل) بند کیوں ہوا جو کشمیریوں کی آواز تھا؟ کیا اس ریڈیو اسٹیشن کو بند کرنے کے پیچھے اس گروہ کا ہاتھ تو نہیں جنہوں نے 1020 کنٹریکٹ ملازمین کو بیروزگار کر کے سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے؟

ظلم جن رہا ہے بچے کوچہ و بازار میں
انصاف کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں