’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘ 111

’’ایمبولینس ڈرائیور اور درباری صحافی‘‘

’’ایمبولینس ڈرائیور اور درباری صحافی‘‘

2 دسمبر کو جب شاہپور کے قریب ایمبولینس جو ایبٹ آباد سے میت لے کر آ رہی تھی کے ہارن کا بجنا خاتون کمشنر سرگودھا کی طبع نازک پر ناگوار گزرا تو ہارن دے کر راستہ مانگنے والے گستاخ ڈرائیور وحید کو اس کے سنگین جرم کی پاداش میں محترمہ کمشنر صاحبہ نے تین روز تک بمعہ ایمبولینس اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک شاہی فرمان کے تحت تھانہ میں بند کروا دیا، راقم سمیت غریب پرور میڈیا کے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس واقعہ کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے پر پابند سلاسل غریب ایمبولینس ڈرائیور کو تو رہائی نصیب ہو گئی اور وہ 6 دسمبر کو اپنے گھر ایبٹ آباد پہنچ گیا،

میڈیا پر خبریں نشر ہونے پر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے واقعہ کی انکوائری کمیٹی بنائی تو تحقیقات کرنے والے بیوروکریٹس جو خاتون کمشنر کے ہم پلہ تھے نے حسب سابق خاتون کمشنر کو وقوعہ سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے واقعہ کا نزلہ ایس ایچ او تھانہ ساجد شہید سب انسپکٹر اسد اویس پر گرا کر اسے معطل کرا دیا؟ میڈیا نے پھر حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے اسے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اجاگر کیا تو اختیار پھر حرکت آئے اور ڈائریکٹر تعلقات عامہ سرگودھا ملک مقبول کو میڈیا پر کنٹرول نہ ہونے کی سزا دیتے ہوئے تبدیل کرا دیا گیا، ملکی تاریخ گواہ ہے کہ تجربہ کار، زیرک، اہم عہدوں پر تعینات بیوروکریٹس ایسے معاملات میں نہیں الجھتے اور اگر دانستہ یا انجانے میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے

تو افسران معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طریقہ اسے سلجھانے کیلئے تحرک کرتے ہیں جس میں اکثریت کامیاب رہتے ہیں، کوئی شاد و نادر واقعہ ہی ایسا ہوتا ہے جو حل نہیں ہو پاتا، خاتون کمشنر کو بھی چاہئے تھا کہ وہ ایمبولینس ڈرائیور جسے موصوفہ نے شاہی حکم کے تحت پابند سلاسل رکھوایا تھا سے معذرت کرتیں اور واقعہ پر مٹی ڈل جاتی، لیکن خاتون کمشنر فرح مسعود صاحبہ کو تو اختیارات کا گھمنڈ ہے، اسی وجہ سے اس نے ظلم اور طاقت کا بے جا استعمال کیا، جس پر محترمہ کی جگ ہنسائی ہوئی، ایبٹ آباد اور سرگودھا میں ایمبولینس ڈرائیورز نے ہارن بجا کر اور سول سوسائٹی نے کتبے اٹھا کر احتجاج کیا۔ تو خاتون کمشنر کے طبلچیوں نے موصوفہ کو پھر الٹی پٹی پڑھاتے ہوئے\

صحافیوں کو نیچا دکھانے کا مشورہ دیا تو محترمہ کمشنر صاحبہ نے ایک درباری صحافی کو اپروچ کر کے اس کی خدمات حاصل کیں، درباری صحافی نے خاتون کمشنر کے خاندان کا شجرہ نسب اور محترمہ کی شان میں خوب قصیدے پڑھے، اور ایمبولینس واقعہ کو تجاوزات مافیا کے خلاف آپریشن سے جوڑنے کی خوب کوشش کی حالانکہ ایمبولینس واقعہ دو دسمبر کا ہے، اور تجاوزات آپریشن 6 دسمبر سے شروع ہوا، درباری صحافی نے چینل پر اپنے طبقہ کی شدید مخالفت کی اور سرگودھا سمیت چھوٹے اضلاع کے صحافیوں کو رگیدتے ہوئے دھوبی، موچی، نائی تک قرار دیتے ہوئے

علاقائی پریس کلبوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، اس طرح بادی النظر میں سرگودھا نہیں ملک بھر کے علاقائی صحافیوں اور علاقائی پریس کلبز کی توہین کی، جس کے جواب میں ڈویژن کے اضلاع خوشاب، بھکر، میانوالی، سرگودھا کے صحافی موصوف کو کوس رہے ہیں اور دن بدن قرب و جوار کے اضلاع اور تحصیلوں کے علاقائی صحافیوں کی آواز سرگودھا کے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی ہے، جو لاوا بن کر درباری صحافی کے خلاف پھٹ پڑے گی؟ بات کہاں سے کہاں نکل گئی راقم کا درباری صحافی سے سوال ہے کہ جب سال 2018ء میں یہی خاتون فرح مسعود صاحبہ ساہیوال میں بطور کمشنر تعینات تھیں تو موصوفہ نے اس وقت کی ڈی پی او پاکپتن میڈم ماریہ محمود کے

ساتھ مل کر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے 776ویں عرس مبارک کے موقع پر 7 محرم الحرام کی شب عرس کے تیسرے روز دربار شریف کے بہشتی دروازہ کو کھول کر اختیارات اور طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بہشتی دروازہ گزرنے کا نا پسندیدہ عمل کیا تھا، جو کہ اس روحانی سلسلہ کی روایات کے خلاف تھا، دربار شریف کی دیوان فیملی اور عقیدت مندوں، زائرین، کے احتجاج پر پنجاب حکومت نے کمشنر ساہیوال فرح مسعود کا فوری تبادلہ کر دیا تھا، یہ آپ (درباری صحافی) کو یاد کیوں نہ رہا؟ حالات بتا رہے ہیں کہ آپ یہ سب کچھ لفافہ حاصل کر کے کر رہے تھے یا آپ کی معلومات کمزور تھیں کہ آپ اتنا بڑا وقوعہ جس پر بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے اندرون و بیرون ملک لاکھوں عقیدت مندوں،

مریدین نے قریہ قریہ احتجاج کیا اور اس کا اس وقت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شور اٹھا، آپ تو سیاستدانوں، بیورو کریٹس کے خاندانوں کے دلوں کے احوال جاننے کے دعویدار اور اکثر پروگراموں میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، تو بہشتی دروازے والا وقوعہ آپ کیسے بھول گئے؟ جناب آپ کو واضح کرتا چلوں ادارے چھوٹے نہیں ہوتے، حضور آپ نے علاقائی صحافتی برادری کو رگید کر اپنی چھوٹی سوچ کی وضاحت فرمائی ہے، اس کے علاوہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ آپ نے بھی بطور نامہ نگار اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا اور اب اینکر تک پہنچ گئے ہیں، آپ کو تمام عمر اس شعبہ صحافت میں گزارنے کے باوجود یہ نہیں پتہ چلا کہ خبر کی تردید بھی خبر ہوتی ہے، یعنی آپ نے محترمہ کمشنر صاحبہ کی ہمدردی نہیں کی

بلکہ جلتی پر تیل ڈال کر آگ کو بھڑکانے کا کام کیا ہے، آپ کے علاقائی صحافی دشمن رویہ سے ایک بات تو طے ہے کہ آپ نے سوائے ’’بوڑھا‘‘ ہونے کے کوئی کام نہیں کیا؟ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ یہ علاقائی صحافی ہی ہیں جن کی قربانیوں اور دن رات گرمی سردی، بغیر وسائل اور بغیر تنخواہ محنت سے بڑے ادارے اور آپ جیسے درباریوں کے کام چلتے ہیں۔ بات پھر کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی ایمبولینس واقعہ میں ایس ایچ او اور ڈائریکٹر تعلقات عامہ کو بھینٹ چڑھا کر خاتون کمشنر کے صاف بچ نکلنے کی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ماضی میں بھی اس طرح کی لا تعداد مثالیں موجود ہیں کہ ’’کرے کوئی۔۔ بھرے کوئی‘‘ اس واقعہ میں بھی انکوائری کرنے والوں نے اپنی ہم پلہ بیوروکریٹ کو صاف بچا لیا؟

اور قصور وار سب انسپکٹر کو قررا دے دیا جو انصاف کا خون ہے۔ کپتان جی آپ نے تو چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ میرے دور میں جو افسر کرپشن یا اختیارات سے تجاوز کرے گا وہ معطل نہیں نوکری سے برطرف ہو گا؟ جناب عمران خان صاحب ایمبولینس واقعہ آپ کے دور حکومت میں پنجاب کے شہر میں ہوا جس کی انکوائری کرنے والی بیوروکریسی کی کمیٹی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو غلط رپورٹ دے کر ان کی آنکھوں میں دھول جھونک چکی ہے، یا پھر وہ بیوروکریسی کے بچھے جال سے خوفزدہ ہیں، کپتان جی آپ کو اس واقعہ کا خود نوٹس لینا چاہئے اور تگڑے ایماندار افسروں کی انکوائری کمیٹی بنا کر فوری تحقیقات کراتے ہوئے تین روز تک غریب ایمبولینس ڈرائیور کو سکہ شاہی حکم کے تحت پابند سلاسل رکھنے والی ذمہ دار آفیسر کو اپنے اعلان کے مطابق معطل نہیں نوکری سے برطرف کرنا چاہئے، کپتان جی ایسا کب ہو گا؟ سرگودھا سے ایبٹ آباد تک کے عوام اس کے منتظر ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں