کیوں کہ میں سوچتا ہوں؟ 101

دورِ جدید کی ست رنگی کالم نگاری

دورِ جدید کی ست رنگی کالم نگاری

تحریر۔حمادرضا
ایک دفعہ مشہور فکاہیہ کالم نگار گلِ نوخیز اختر کی تحریر نظروں سے گزری تھی جس میں انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کر رکھا تھا کہ ایک دفعہ کسی آدمی سے کسی نے پوچھا کے کالم اور خبر میں کیا فرق ہوتا ہے تو آدمی نے جواب دیا خبر وہ ہوتی ہے جو کسی اخبار کے باہر والے صفحے پر چھپتی ہے اور کالم وہ ہوتا ہے جو اخبار کے اندر والے صفحے پر چھپتا ہے حیران نا ہوں اگر آپ آج بھی کئ باقاعدہ لکھنے والوں سے کالم کی تعریف پوچھیں تو ہو سکتا ہے

آپ کو ایسا ہی کوئ جواب سننے کو ملے کالم نگاری بلاشبہ صحافت کی ایک مقبولِ عام قسم ہے ایک اچھا کالم نگار اخباری سر کولیشن کو بھی براہ راست متاثر کرتا ہے یا آسان الفاظ میں آپ یوں کہہ لیں کے کالم نگار بعض دفعہ اخبار کی پہچان بن جاتا ہے تو یہ غلط نا ہو گا اب مثال کے طور پر اگر میں یہاں جاوید چودھری کی بابت بات کروں تو فوراً پہلا خیال ذہن میں ایکسپریس نیوز کا ہی آتا ہے کیوں کہ چودھری صاحب ایک عرصے سے اپنا کالم ایکسپریس کے لیے لکھ رہے ہیں اکیسویں صدی جس میں بہت ساری چیزوں میں تبدیلی اور جدت آئ ہے وہیں کالم نگاری بھی اس کا شکار نظر آتی ہے

میں جب چند سال پہلے جامعہ میں شعبہ صحافت کا طالبعلم تھا تو اساتذہ کی جانب سے اس بات پر بڑا زور دیا جاتا تھا کہ کالم چونکہ عام آدمی کے لیے لکھا جاتا ہے اس لیے اس کی زبان کو بہت سادہ اور عام فہم ہونا چاہیے تا کہ قاری کی سمجھ میں بات آسانی سے آ سکے لیکن آج کل اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کالم نگار اپنے کالموں میں انگریزی فارسی استعاروں محاوروں کا استعمال دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں ان کا کالم پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مقصد ابلاغ کرنا نہیں بلکہ پڑھنے والے پر اپنی علمی دھاک بیٹھانا ہے دوسری تبدیلی جو آج کل کی کالم نگاری میں محسوس کی جاتی ہے

وہ خصوصاً نامور کالم نگاروں نے اپنے کالموں میں لاگو کر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ کالم کے آغاز میں ہی ادب کا دلفریب ٹیکہ قاری کو چبھویا جاتا ہے تا کہ قاری شروع میں ہی عملِ تنویم کا شکار ہو کر کالم پورا پڑھنے پر مجبور ہو جاۓ زیادہ تر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ایسے کالم نگاروں کا تین بٹہ چار حصہ سراسرادب پر مشتمل ہوتا ہے بعض دفعہ تو پوری کی پوری تحریر ہی کالم کے زمرے میں نہیں آتی لیکن اسے ادارتی صفحے کی زینت بنا دیا جاتا ہے

کیونکہ تحریر لکھنے والے کے ساتھ کوئ بڑا نام جڑا ہوتا ہے یاسر پیرزادہ کی ایک تحریر جنگل میں بھٹکتے ہوۓ جنگ کے ادارتی صفحے کی زینت بنی جس میں افسانوی ادبی رنگ نمایاں نظر آتا ہے اسی طرح آپ کینیڈا میں رہائش پذیر ماہرِ نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل کی تحریر دو پیروں والی ماں پڑھیں تو وہ کہانی کے رنگ میں رنگی نظر آۓ گی بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کسی بھی ادبی صنف کو لے لیں وہ چاہے افسانہ ہو ڈرامہ ہو یا ناول ان ساری صنفوں میں آپ کو کردار منظر نگاری اور کہانی تو مشترک ملے گی لیکن ان ساری اصناف کا سانچہ کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا افسانے کو افسانے کے ہی سانچے میں پکایا جاۓ تو وہ افسانہ کہلاۓ گا اسی طرح ڈرامےکو ڈرامے کے سانچے میں پکانا پڑے گا

یہی حال کالم کا ہے آج کل لکھاری اور الفاظ کی جادوگری تو موجود ہے وہیں کالمی سانچے کے استعمال میں کمی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ سے تحریر صحافتی سے زیادہ ادبی نظر آتی ہے گزشتہ صدی کے کالم نگار اسی لیے اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے تھے کیوں کہ وہ خالصتاً اخباری کالم کا سانچہ استعمال کرتے تھے اس میں پہلے ایک نکتہ اٹھایا جاتا تھا پھر اس پر کالم نگار اپنا ذاتی مؤقف پیش کرتا تھا اور آخر میں کسی حد تک حل بھی پیش کر دیا جاتا تھا افسانوی تحریر کے کئ رنگ ہو سکتے ہیں لیکن صحافتی کالم کا صرف ایک رنگ ہوتا ہے

کہ یہ صرف اور صرف کالم نگار کی ذاتی آراء پر مشتمل ہوتا ہے آج ہم نے صحافت اور ادب کو ایک ہی کھونٹی سے باندھ رکھا ہے آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق کالم اس میں الجھ کر رہ گیا ہے لکھاری حضرات سے میری بھر پور التماس ہے کہ قلم اٹھانے سے پہلے از خود فیصلہ کر لیا کریں کے وہ صفحہ قرطاس پر زردہ پکانا چاہتے ہیں یا متنجن۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں