پس پردہ 89

مسائل تعلیم نسواں

مسائل تعلیم نسواں

تعلیم سے دوری ،خدا سے دوری،خداسے دوری ،جہالت وگمراہی کا راستہ۔تعلیم انسانیت کے آداب سیکھاتی ہے۔تعلیم حقیقت سے انسان کوروشناس کراتی ہے۔تعلیم انسان کواپنے خالقِ حقیقی کافرماںبردار بناتی ہے۔تعلیم احترام کانورپھیلاتی ہے ۔تعلیم سچائی کا دیب جلاتی ہے۔تعلیم کراداانسان کو پاکیزہ بناتی ہے ۔

تعلیم محمودوایاز کوایک صف میں لاتی ہے۔تعلیم سچائی کے پارٹ پڑھاتی ہے۔تعلیم محبت کے وار سے نفرت کومٹاتی ہے ۔انسانی تعلیم کاآغاز حضرت آدمؑ کی پیدائش سے ہی ہوگیا تھا ۔اللہ تعالی نے بابا آدمؑ کو زمین پربھیجنے سے قبل ا ن کواشیا ء کے استعمال کا علم سیکھایا۔تعلیم کی حقیقت یہ ہے ،کہ آپﷺ نے اشاعت تعلیم مین اس قدر دلچسپی لی، کہ تئیس سال23کی قلیل مدت میں عرب کے ملک میں ایک تعلیمی انقلاب برپا کر دیا تھا

۔جوں جو ں مختلف علاقے اسلامی سلطنت میں شامل ہوتے گئے ۔مساجد کی تعداد بڑھتی گئی ،یہا ں تک کہ ہرگاؤں ہرمحلے میںمسجد تعمیر ہوئی اورہر مسجد اس آبادی کامکتب اورمدرسہ بھی تھی ۔ان مساجد میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے مضامین تک پڑھائے جاتے تھے۔جن میںتفسیر، حدیث،فقہ ،لغت ،ہیئت،ریاضی ،منطق،علم الکلام اورطب وغیرہ کے علاوہ کسی خاص پیشہ کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت اورافادیت ہے ۔انقلاب عرب نے تعلیم کی بدولت دنیا میں ایک نمایا مقام حاصل کیا۔جہاں تک بات ہے تعلیم نسواں کی تو تعلیم حاصل کرنا ہر مر د و عورت پر فرض اورلازم قرار دیا گیا ہے۔تعلیم نسواں کے بنا یہ معاشرہ ادھورہ ہے نامکمل ہے ۔تعلیم نسواں کو نظر ا نداز کرنا نہایت ہی احمقانہ فیصلہ ہوگا۔تعلیم نسواں کے بغیر تعلیم وتربیت ،آداب واخلاق لاوارث ہوجائیں گے ۔

عورت ہی معاشرے میں اخلاق ،آداب ،محبت ،عقیدت ،احترام کاسبب بنتی ہے ۔کیونکہ بچہ بولنے سے سکول ومدارس جانے تک یہ سب کچھ اپنی ماں سے ہی تو سیکھتا ہے ۔اگرایک ماں تعلیم یافتہ ہوگی ،تو بچہ آدابِ سلیقہ سیکھے گا۔ماں اگر ان پڑھ ہوگی تو بچہ معاشرے کی غیراخلاقی روایات کواپنائے گا۔یہ ایک حقیقت ہے اگر تعلیم نسواں پر پردہ ڈال دیا جائے ۔تو معاشرہ زوال کے عروج پر ہمیں دکھائی دے گا۔مسائل تعلیم نسواں کے بغیر یہ معاشرہ نامکمل ہے۔ اس معاشرے کی ترقی میں عورت ذات کا اہم کردار ہے

۔سب سے بڑا الزام یہ لگا یا جاتا ہے،کہ تعلیم نسواں میں سے بڑی رکاوٹ دیہی علاقوں میںرہائش پذیر وہ لوگ ہیں ۔جن کی سوچ پرانی روایات پرمشتمل ہے،جو تعلیم میں نسواں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔جو اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں اوران کی تعلیم کو غیرضروری تصور کرتے ہیں ۔مگر کیوں خلاف ہیں؟، کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کسی نے۔ان کے خدشات کودور کرنے کی

کوشش کسی حکومت نے کی ہے ۔گھر کی تربیت بہتر ہونے کے باوجود انسان جب کسی جگہ جاتاہے اور عرصہ گزارنے کے بعد وہاں کی تہذیب وثقافت کے اثرات اس انسان پر ضرور اپنا نقش چھوڑتے ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کہ وہ مکمل طور پر غلط ہیں ،مگر کافی حدتک والدین کے خدشات برحق ہیں۔ہمارے نظام تعلیم کے اند ر بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔جو اس وقت ناقص ہوچکی ہیں۔اسلام نے عورت کی تعلیم پرزور ضرور دیا ہے۔

مگر ساتھ ساتھ شرم وحیا اخلاقیات کی حدود کاتعین بھی کررکھا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک نظام تعلیم فرسودہ انگریز سامراج کا بنایا ہوا ہے ۔
Co Eucationکی تباہ کاریوں کومدنظر رکھتے ہوئے والدین اپنی بچیوںکواس غیراخلاقی سسٹم کاحصہ بننے سے گریز کرتے ہیں۔میں جب ایف کاامتحان دے رکھا تھا اس وقت 12thکی کتاب علم التعلیم میں ایک تحریر نصب تھی۔کہ جب انگریز سامراج برصغیر کوچھوڑ کر جانے لگا توایک انگریز جو تعلیم میں وزیر تھا مجھے اب نام یاد نہیں آرہا اس نے کہا” ہم برصغیر کوچھوڑ کرتو جارہے مگر ساتھ ساتھ ایک

ایسانظام تعلیم کاطریقہ دے کر جارہے ہیںکہ اگلے دوسوسال تک یہاں کے لوگ شکل وصورت سے تو برصغیر کے ہونگے مگر اخلاقی طو ر پر انگریز رہیںگے” تو یہی حالت آج ہمارے نظام تعلیم کی ہے ۔ہمیں سب سے پہلے اس ناقص سسٹم کوبدلنا ہوگا، اس نظام تعلیم کو اسلام کے مطابق ترتیب دینا ہوگا ۔ اُس وقت دیہی علاقوں میں رہنے لوگوں کی سوچ بدلے گی ۔والدین بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں نظام تعلیم میں

خامیوں پرخدشات پرمجبور ہوجاتے ہیں ۔میرے نظریات کے مطابق والدین کی بات کافی تک حقائق پرمبنی ہے معذرت کے ساتھ ہمارے تعلیمی اداروںمیں سوائے تہذیب اخلاق اورشعور کے سب کچھ سکھایا جاتاہے ۔تعلیم عورت کے لئے لازم ہے اس کو نظرانداز کرنا ،دین اسلام کے قانون کوپشت پرڈالنے کے مترادف ہے ۔مگر پہلے نظام تعلیم کو اس قابل بنانا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں