ووٹ کی عزت ، جمہوریت اور نیا پاکستان 93

ووٹ کی عزت ، جمہوریت اور نیا پاکستان

ووٹ کی عزت ، جمہوریت اور نیا پاکستان

ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار سے محرومی کے بعد جمہوریت کی سمجھ آتی ہے یہی سیاستدان آمریت کی شفقت سے اقتدار کی سیڑھی چڑھتے ہیں تو پھر اپنے ہی “محسنوں” سے محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں ان جمہوریت پسندوں کے نزدیک اقتدار تک پہنچنے کے لئے آمریت کی فراہم کردہ سیڑھی ملکی ترقی و استحکام کا تقاضا ہوتی ہے اور چھت پر پہنچ جانے کے بعد وردی پوش “محبت ” جمہوریت دشمنی بن جاتی ہے۔
بھٹو صاحب اپنے “ڈیڈی” جنرل ایوب خان کی زیر شفقت برسوں اقتدار میں شریک رہے اس وقت تک ان کے نزدیک محسنہ قوم اور بحالی جمہوریت کی قائد محترمہ فاطمہ جناح غدار وطن تھیں جبکہ فوجی آمر جنرل ایوب خان اپنی ٹیم سمیت محب وطن تھے ملک کے دولخت ہونے سے کچھ پہلے جنرل ایوب خان کے منہ بولے لخت جگر بھٹو جمہوریت کے علمبردار بن کر ابھرے اور1971 میں باقی ماندہ پاکستان کے جمہوری وزیراعظم بن کر سامنے آئے پھر 1979 میں انکو اقتدار سے محروم کرنے والے جنرل ضیاء الحق غاصب و آمر ٹھہرے۔
ضیاء آمریت کے زیر سایہ پرورش پانے والے نئے لیڈر نواز شریف نے صوبائی وزیر سے وزیراعلی پنجاب بننے کے بعد جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوری اتحاد قائم کیا اور بحالی جمہوریت کی لیڈر محترمہ نظیر بھٹو کو ملک اور اسلام کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا نواز شریف 1990 میں وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہوگئے 1990 سے 1999 تک جنرل ایوب خان کی لیبارٹری سے تیار کردہ لیڈر بھٹو کی وارث محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل ضیاء لیبارٹری میں تیار ہونے والے

نواز شریف کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی نواز شریف کی جمہوریت کے لئے آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب جنرل پرویزمشرف انکو اقتدار سے بے دخل کر دیتے ہیں۔نواز شریف فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کے تحت اپنے ورکرز کو جمہوریت کے ٹرین پر چڑھا کر خود خاندان سمیت بیرون ملک پرواز کر جاتے ہیں۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ” آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں” کے مصداق ماضی کے دو سیاسی مخالف محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اقتدار سے باری باری دھکے کھانے کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر کے جمہوریت کی بقا کے لئے مل کر جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری حصے میں جمہوریت کی چیمپئن پپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ صدارت میں وزارت عظمی کا حلف اٹھانا عار محسوس نہیں کرتے۔
ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑنے والی جماعت اسلامی بھٹو دشمنی میں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں شریک ہونا ثواب کا کام سمجھتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے اسلام کے علمبردار قاضی حسین احمد ، مولانا فضل الرحمن ، مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا سمیع الحق اور علامہ ساجد نقوی کی جماعتیں مل کر سترہویں آئینی ترمیم کے سہولت کار بن کر جنرل پرویز مشرف کی باوردی صدارت کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
2011 تک نوجوانوں کو ساتھ لےکر مغربی معیار کے نئے پاکستان کی دریافت کے دعویدار عمران خان بھی الیکٹیبلز اور “شفقت پدرانہ” کے سہارے 2018 میں وزارت عظمی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور نئے پاکستان کو کہیں راستے میں کھو دیتے ہیں۔
اس وقت اقتدار سے محروم تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں سڑکوں پر “جمہوریت” کی نام نہاد جنگ لڑ رہی ہیں اور ووٹ کو عزت دلانے کے نعرے لگارہی ہیں انکی تنقید کا ھدف اقتدار پر براجمان عمران خان سے زیادہ وردی پوش ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وردی کے سائے تلے پرورش پانے کی وجہ سے ان سب جمہوریت پسندوں کو وردی فوبیا ہوچکا ہے یہ دن میں سڑکوں پر وردی والوں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور مبینہ طور پر رات کے اندھیرے میں انہی سے معاملات سیدھے کرنے کے لئے کینڈل لائٹ سیاسی میٹنگز کرتے ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مخلص ورکرز کس جمہوریت اور ووٹ کی عزت کے لئے اپنی آتما رول رہے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ پپلز پارٹی کا کوئی باصلاحیت کارکن بھٹو کی جگہ نہیں لے سکا نا ہی مسلم لیگ کا کوئی اہل کارکن شریفوں کا متبادل بن سکا ہے مفتی محمود کی جگہ انکے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان اور تحریک لبیک کے علامہ خادم رضوی کے بعد انکے بیٹے سعد رضوی قیادت کے حق دار ٹھرے ہیں کم و بیش سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں مخصوص خاندانوں کی لونڈیاں بن کر رہ گئی ہیں ان میں سے کسی جماعت میں جمہوریت موجود نہیں ہے۔
عمران خان جن نوجوانوں کے کندھوں پر سوار ہوکر ملک بچانے اور آئیڈیل فلاحی جمہوری ملک کی دریافت کے لئے نکلے تھے ان نوجوانوں کو راستے میں ہی چھوڑ کر نام نہاد الیکٹیبلز کے ساتھ مل کر اقتدار انجوائے کر رہے ہیں جبکہ گالیاں وردی والے کھارہے ہیں۔
معلوم نہیں اقتدار پر فائز اور اقتدار سے محروم جماعتیں کون سی جمہوریت ، تبدیلی اور ووٹ کی عزت کے لئے آہ و بکا کررہے ہیں ہمارے نزدیک جمہوریت ، تبدیلی اور ووٹ کی عزت کا مطلب ملک کے تمام شہریوں کے لئے برابر سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق کی دستیابی ہے جس کے مطابق تمام شہری آزادی اور آسانی سے الیکشن لڑ سکیں ، جیت سکیں اور اختیار میں حصہ دار بن سکیں تمام شہری انسانی عزت و احترام ، تعلیم ، علاج ، روزگار اور تحفظ کے مساوی حقوق کے مالک ہو سکیں ریاست اور قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں اگر ایسا نہیں ہوتا تو سب سراب ہے عام ورکرز اور ملک کے شہریوں کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ ہے اس سے بڑی خیانت اور بددیانتی کیا ہوسکتی ہے کہ عوام کے نام پر صرف “خواص” کے ہی حقوق محفوظ ہوں۔
ہمارا ملک انہی دھوکہ باز سیاست دانوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہے ہمارے نزدیک ووٹ کی عزت صرف ایسی سیاسی جماعت کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے اندرونی نظام میں جمہوریت موجود ہو ، جس میں ملک کے تمام شہری شامل ہو کر اپنی صلاحیت کی بنیاد پر ہر منصب تک پہنچ کر اپنا آپ منوا سکیں#

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں