سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیاکیا !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک میں سیاسی گرما گرمی اپنے عروج پر ہے ،حزب اقتدار اور اختلاف ایک دوسرے کو دبانے اور گرانے کیلئے آخری حدیں عبور کرنے لگے ہیں ،اس سیاسی تپش میں مذکرات کے امکانات نہ ہونے کے برابر لگ رہے ہیں، لیکن اس حقیقت کو کوئی بھی رد نہیں کرسکتا تھا کہ معاملات بات چیت سے ہی سلجھتے ہیں، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہوگا، اس تنا ظر میں شیخ رشیدکا بیان قابل توجہ ہے کہ پی ڈی ایم تحریک پر تحروزیراعظم اور آرمی چیف رابطے میں ہیں،31جنوری سے پہلے کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا، وزیراعظم استعفیٰ دیں گے نہ اپوزیشن مستعفی ہو گی۔
وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے سیاست میں مداخلت کی تصدیق ہوتی ہے، گوکہ یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ،بلکہ نوشتہ دیوار ہے ،یہی وہ عنصر ہے جس کے باعث ملکی سیاست ہر وقت دبائو کا شکار اور حکومتوں کو حقیقی اقتدار نہ ملنے کا شکوہ رہتا ہے، یہ صورتحال جب تک قائم رہے گی، اس وقت تک جمہوریت میں کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ، سیاستدانوں اور جمہوریت کو بالغ اور سنجیدہ ہو جانا چاہئے اور اپنے مسائل واختلافات کا حل خود ہی مل بیٹھ کر نکالنا چاہئے یا پھر شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر اتفاق کر کے تنازعہ طے کرلینا چاہئے، آخر عوام کب تک یہ کھیل ہوتا دیکھیں گے۔
سیاسی قیادت ایک طرف جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری جانب باہمی اختلاف کے باعث خود ہی آمریت کو دعوت بھی دیتے نظر آتے ہیں۔سیاست میں اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بھلی ہوتی ہے،لیکن خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب جمہوریت میں اختلافات ناقابل برداشت ہو جائیںاور حالات ذاتیات پر پہنچ جائیں، ایسی صورتحال 90ء کی دہائی میں بھی پیدا ہوئی تھی، جس سے سب سے زیادہ نقصان اپوزیشن کی سرکردہ پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا تھا۔ یہ دونوں آپس میں دست و گریباں رہے،
انہوں نے سیاست میںالزام تراشی دشنام طرازی سے کردارکُشی تک سب کچھ کیااور مقتدر قوتو کے ساتھ مل کر دوبار ایک دوسرے کی حکومتیںگرانے کے بعد ہوش آیا تومشرف کیخلاف دشمنی کو دوستی میں بدل کر متحد ہو گئے۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور مشرف کی پروردہ پارٹی کیخلاف انتخابات ایک دوسرے کی تائید کرتے ہوئے لڑے،آصف زرداری کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف نے کہا تھا کہ پہلے تیری پھر میری باری ہے، انتخابات کے بعد بھی پیپلزپارٹی اور (ن )لیگ کے مابین قربتیں رہیں، 2013ء میں مسلم لیگ ن کی باری آگئی،دونوں ادوار میں فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے طعنے ملتے رہے، مگر ایک دوسرے کیلئے رویے ناقابل برداشت اور ذاتیات تک چلے گئے تھے۔
یہ ستم ظریفی ہے
کہ ملکی سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہیںسیکھا،اسی لیے آج بھی سیاست میں وہی نوے کی دہائی والے ناقابل برداشت ذاتیات اور دشمنی تک پہنچے ہوئے رویے نظر آرہے ہیں، البتہ کردار کچھ بدلے ہوئے ہیں، تحریک انصاف حکومت کے خلاف مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی ہمدم و ہم ساز اورہم آواز ہیں،مولا فضل الرحمن بھی ساتھ آملے ہیں اور پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت گرانے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ہماری سیاسی تاریخ رہی ہے
کہ حکومتیںاحتجاجی جلوسوں اور لانگ مارچ کے ذریعے ہی ختم کی جاتی رہی ہیں،پی ڈی ایم بھی جلسوں کا راستہ چھوڑ کر لانگ مارچ اور ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ کیا پی ڈی ایم کو کامیابی مل پا ئے گی؟ پا کستان میں جب بھی کسی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے احتجاج کا راستہ اختیا ر کیا جا تا ہے تو اس کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ یہ احتجاج اس قدر مو ثر ہو کہ مقتدر حلقے بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں، اب دیکھنا ہو گا کہ پی ڈی ایم کے لانگ ما رچ میں واقعی ہی اس قدر دم خم ہو گا کہ مقتدر حلقے کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں،ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ،تاہم سیاست میں کچھ بھی بدلتے دیر نہیں لگتی ہے۔
سیاست میں آمرانہ رویوں کی بجائے جمہوری رویئے ہی جمہوریت کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں،ماضی میں ایسےہی غیر جمہوری رویوں کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نوے کی دہائی میں دو دو بار آئینی مدت پوری نہیں کر پائی تھیں، پی ڈی ایم تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کرکے خود اقتدار میں آکر کتنا عرصہ حکومت کر پائیں گی؟اس وقت سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں، تحریک انصاف حکومت کے بظاہرجانے کے دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ،فرض کر یں کہ حکومت چلی بھی گئی تو کیا تحریک انصاف کسی دوسرے کو آرام سے حکومت کرنے دے گی
،ایک بار پھر وہی احتجاجی ریلیاں ،وہی دھرنے وہی مردہ باد ،گو گوکے نعروں کی گونج ہی سنائی دینے لگے گی ،اس لیے سیاست دان ہوش کے ناخن لیںاورجمہوریت کا مردہ خراب ہونے کی نوبت نہ آنے دیں،پی ڈی ایم قیادت سیاسی کی بجائے غیر سیاسی قوتوں سے مکالمے کی خواہاں ہے، سیاسی قیادت بھول رہے ہیںکہ غیر سیاسی قوتوں سے مکالمے کے بعد نکلنے والا راستہ جمہوریت کیلئے ساز گار نہیں ہو گا ، سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لیںاور بروقت آپس میں مکالمہ کے ذریعے درمیانی راستہ نکالیں ، اگرسب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔