پس پردہ 94

قادیانی مسلمان ہیں یا یھودی

قادیانی مسلمان ہیں یا یھودی

اسلام اور یہودیت کے تعلق کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں طلوع اسلام اور اس کی اشاعت سے ہوتا ہے۔اسلام اور یہودیت کا منبع ایک ہی شخصیت یعنی پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات ہے یہودیت کی حقیقت اس وقت ہی ختم ہوگئی جب اسلام کا سورج طلوع ہوا ۔اسی وجہ سے ہی اہل یہود نے اسلام کے بانی کے خلاف ان کی آمد سے پہلے ہی سازشیں کرنے لگے اور اسلام کے دشمن نے اپنے دلوں میں پال لی۔یہ اہل یھود کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے یہ قرآن پاک نے فیصلہ دیا ہے ?- نبی کریم صل وسلم کی آمد سے قبل ہی اہل یھود کی سازشیں اہل کتاب بعض علامتوں اور نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخزالزماں سرور کون و مکاں کا وجود گرامی حضرت عبد اللہ کے صلب میں ودیعت ہے

اس لیے اطراف و اکناف سے وہ آپ کو ہلاک کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں آنے لگے۔ ]16[ یہود کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی ملک شام سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ جب تک حضرت عبد اللہ کی روح کو قفس عنصری سے آزاد نہ کرا لے گئے اور حیات کو موت میں تبدیل نہ کر لے واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان بد نہاد یہودیوں نے اپنے فاسد ارادے کی تکمیل کے لیے الو کی خاصیت کو اختیار کیا یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کو کسی جگہ چھپ کر آرام کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے اور کسی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ حضرت عبد اللہ کو تنہا پا کر اپنے مقصد کو پورا کر لیں۔ حسن اتفاق سے ایک دن حضرت عبد اللہ تنہا شکار کے لیے مکہ سے باہر تشریف لائے

اور ان بد بختوں نے موقع غنیمت جان کر حملہ کے لیے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔ یہود کی بدقسمتی کہ اس دن حضرت آمنہ والد ماجد حضرت وہب بن عبد مناف زہری بھی شکار کے ارادہ سے نکلے اور ابھی حضرت عبد اللہ سے دور ہی تھے کہ انہوں نے تلواروں کی چمک اور کھنک کی آواز سنی۔ عربوں کی روایتی غیرت و حمیت نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ ان کا ایک فرد کس مپرسی کے عالم میں دشمنوں کے ہاتھوں مارا جائے۔ جب انہوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ چند آدمی ہیں اور دشمنوں کی تعداد کافی ہے۔ ابھی اسی سوچ میں تھے کہ آپ نے دیکھا کہ آسمانی مخلوق ابلق گھوڑوں پر سوار چرخ اطلس فرش زمیں پر اتری اور ان کی انسانی مخلوق سے کوئی مشابہت نہ تھی۔

ان بہادر سواروں نے آتے ہی بدکردار یہودیوں پر حملہ کر کے چھکے چھڑادیے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا حوالہ جات Islamic Ethics and Counselor Decision-Making — ناشر: ایس اے جی ای پبلشنگ ا ب سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 53 ا ب پ محمد رسول اللہ ﷺ کے آباؤ اجداد کا تذکرہ مولف ڈاکٹر محمود الحسن عارف صفحہ 250? سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 62? سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 9 ا ب پ سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 51? طبقات ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی

جلد اول حصہ اول صفحہ 94? سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 119? سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 72? سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد دوم صفحہ 74? معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 734? معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ جلد مصنف ملا معین واعظ الہروی مترجمین علامہ اقبال احمد فاروقی، حکیم اصغر احمد فاروقی جلد اول صفحہ 735 اور 736? سیرت نبی ﷺ ابن ہشام مصنف محمد عبد الملک ابن ہشام اردو مترجم مولوی قطب الدین احمد جلد اول صفحہ 157 تا 160? طبقات

ابن سعد مصنف محمد بن سعد اردو ترجمہ علامہ عبد اللہ العمادی جلد اول حصہ اول صفحہ 107? سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 71 اور 72? سیرت والدین مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم از مولانا سید صادق انواری اشرفی قادری صفحہ 67*2 – نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت کرنے کے بعد اہل یہود کی سازشیں* یثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے

۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔یہود و مشرکین کی سازشیں
میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا

جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف نے قتل کر دیا۔ ابو عفک کو حضرت سالم بن عمیر نے قتل کیا۔]19پھر کچھ جنگیں بھی ہوئی جن کا مختصر ذکر درج ذیل ہے غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ئ) کو یہ جنگ ہوئی۔

مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ئ۔ جنوری 628ئ) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ئ) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست۔ ستمبر 629ئ) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ئ) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔غزوہ حنین

شوال 8ھ (جنوری۔ فروری 630ئ) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ئ) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
حوالہ جات
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا
? مسند احمد جلد 1 صفحہ 361? مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم? مستدرک الحاکم? خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48? تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34? سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177? تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575? البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294? مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43? ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت*3 – حضرت ابو بکر اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں اہل یہود کی سازشیں* مدینہ منورہ پر حملہ قبیلہ عبس و ذیبان جوش مردانگی سے ابل پڑے۔ عبس، ابرق، ذیبان ذی القصہ میں آ اترے۔ ان کے ساتھ کچھ لوگ بنی اسد اور بنی کنانہ کے بھی تھے۔ ان لوگوں نے متفق ہو کر چند آدمیوں کو بطور وفد ابو بکر صدیق کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے بمقابلہ معززین مدینہ نماز کی

کمی اور زکوۃ کی معافی کی درخواست کی۔ ابو بکر نے کہا واللہ اگر ایک عقال (جس رسی سے اونٹ کے پاؤں باندھتے ہیں) نہ دیں گے، تو میں ان سے جہاد کروں گا اور پانچ وقت کی نماز میں سے ایک رکعت کی بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ مرتدین کے وفود یہ سخت جواب سن کر اپنے گروہ میں واپس آئے اور مسلمانوں کی قلیل تعداد سے آگاہ کیا۔ عبس و ذیبان اس خبر کے سنتے ہی مارے خوشی کے جامہ سے باہر ہو گئے۔ اس وقت بلا پس و پیش مدینہ پر حملہ کر دیا۔ لیکن ان کے حملہ کرنے سے پہلے ہی ابو بکر صدیق نے یہ انتطام کر رکھا تھا کہ گشت پر علی و زبیر و طلحہ و عبد اللہ بن مسعود کو مقرر کیا تھا

اور جو لوگ مدینہ میں موجود تھے ان کو مسجد نبوی کے سامنے یک جا کر رکھا تھا۔ جس وقت عبس و ذیبان نے اسلامی گشت پر حملہ کیا۔ ابو بکر نے اس واقعہ سے مطلع ہوتے ہی مسلمانان مدینہ کو ان کی کمک پر بھیج دیا۔ مرتدین کو شکست ہوئی اور اسلامی لشکر نے ذی خشب تک ان کا تعاقب کیا۔ اس کے بعد مرتدین دوسرے راستے سے بانسری و دف بجاتے زمین پر پاؤں پٹکتے طرح طرح کی حرکات و تماشے کرتے ہوئے لوٹے جس سے اسلامی لشکر کے اونٹ بھڑک کر بھاگے کہ انہوں نے مدینہ میں ہی جا کر دم لیا۔ ادھر مرتدین نے یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی۔

اہل ذی قصہ کو مدینہ پر حملہ کے لیے کہلا بھیجا۔ ادھر ابو بکر خود مقابلہ کے قصد سے مسلح ہو کر نکلے۔ میمنہ پر نعمان بن مقرن میسرہ پر عبد اللہ بن مقرن اور ساقہ پر سوید بن مقرن کو مقرر کر کے فجر کی نماز اول وقت پڑھ کر مرتدین پر حملہ آور ہوئے۔ دوپہر نہ ہونے پائی تھی کہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی اور مرتدین میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ بنی اسد سے حبال مارا گیا۔ ظہر کے وقت نعمان چند مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت لے کر مدینہ واپس ہوئے اور ابو بکر مرتدین کے تعاقب میں ذی قصہ تک بڑھتے چلے گئے۔ اسی اثناء میں بنو ذیبان و عبس نے موقع پر نعمان پر دفعتہً حملہ کر کے مال غنیمت لوٹ لیا اور جس قدر مسلمان سامنے آئے انہیں شہید کر ڈالا۔
ابو بکر صدیق جب تعاقب سے واپس لوٹے اور اس واقعہ کو سنا تو قسم کھائی جس قدر مرتدین و مشرکین نے مسلمانوں کو شہید کیا اتنے ہی آدمیوں کو میں ان میں مار دوں گا

اور جب تک دشمن خدا سے اس کا بدلہ نہ لے لوں گا آسائش سے نہ بیٹھوں گا۔ ابو بکر اسی ارادے میں تھے کہ مدینہ میں اطراف و جوانب ممالک سے صدقات آگئے اور اسامہ بھی مال غنیمت اور فتح کی خوش خبری لیے ہوئے آ پہنچے۔ ابو بکر صدیق نے اسامہ کو مدینہ میں نائب بنا کر لشکر اسلام کو مرتب کیا اور آپ خود چند آدمیوں کو لے کر ذی خشب و ذی قصہ کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ ابرق پہنچ کر عبس و ذیبان و بنو بکر (کنانہ) ثعلبہ بن سعید اور ان کے ہمراہیوں سے مقابلہ ہو گیا۔ فریقین نے کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ انجام کار مرتدین شکست کھا کر بھاگے تو مسلمانوں نے ان کو شمشیر و نیزہ پر رکھ لیا اور ایک کثیر جماعت ان میں سے ماری گئی۔ اس واقعہ کے بعد ابرق میں ابو بکر نے چند روز قیام کر کے بنو ذیبان کو ان مقامات سے بالکل بے دخل کر کے مسلمانوں کے قبضہ میں دے دیا اور خود مدینہ منورہ واپس آگئے۔*4 -حضرت عثمان کے

دور میں اہل یہود* خارجی اور منافقین جو اصل میں اہل یہود کے قریب تھے۔ اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی۔ یہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے۔ ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے ابوبکر کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا۔ ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے عمر کو خلیفہ اسلام چن لیا۔ عمر کے بعد ?پ کا سریر آرائے خلافت ہونا بھی ان مسلمان نما منافقوں کے لیے صدمہ جانکناہ سے کم نہ تھا۔ انھوں نے آپ کی نرم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی

اور ایسے وقت میں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کیا جب اکثر صحابہ کرام حج کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی۔علی اس صورت حال سے سخت پریشان تھے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین کے ہمراہ کئی صحابہ زادوں جن میں طلحہ کے صاحبزادوں سمیت عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر بھی شامل تھے ان سب کو کاشانہ خلافت کی حفاظت پر مامور کیا۔ تاہم اور چالیس روز تک محبوس رہے۔ چالیس روز بعد باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو شھید کردیا۔ اس دلخراش سانحہ مین آپ کی زوجہ نائلہ کی انگشت مبارک بھی شھید ہو گئیں۔ آپ کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب نے خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے خلافت سنبھالی۔ابن عساکرزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ محمد رسول عربی نے فرمایا ایک دن عثمان میرے پاس سے گزرے اور اس وقت ایک فرشتہ میرے قریب تھا جس نے کہا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں