عدالتوں میں انصاف کا بکنا معاشرے کی تباہی
ماڈل ٹاٶن کچہری جیسے واقعات میں ملوث کالے کوٹ والوں نے اپنے ہی پیشہ پر سیاہی مل دی ۔لاہور میں جعلی پولیس مقابلے شروع۔پولیس اصلاحات کی قلعی کھل گٸی۔سابق آٸی جی پنجاب کیپٹن(ر) عارف نواز، سابق سی سی پی او لاہور بے اے ناصر ، ڈی آٸی جی انعام وحید اور ڈی آٸی جی اشفاق خاں کے دور میں ‘کتابی پولیسنگ’ کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ایک بھی مقابلہ نہ ہوا اور جراٸم میں خاطر خواہ کمی ہوٸی۔جہاں آٸی جی سندھ کو انصاف نہ ملے ، بھلا عام آدمی کو کیسے ملے گا۔ایک اہم ادارے کے اہلکاروں پر عوام کا تشدد لمحہ فکریہ ہے ۔یقینا یہ کوئی امرِ پوشیدہ نہیں
کہ انصاف کا خاتمہ معاشروں کی تباہی کا موجب بنتا ہے،ایسے میں اگر عدالتوں میں انصاف بکنے لگے اور کوتوال شہر اور اسکے ہم رکابوں کی فوج ظفر موج بھی ظالموں اور مجرموں کے ساتھ ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن کر انکے لئے ایک مضبوط سائبان بن جائے تو بے کسوں ، بے بسوں اورمظلوموں کے لئے ایک ایسی شب ِ اسود طاری ہوتی ہے جہاں چار کھونٹ محض سوختہ حال عوام کی سسکیاں اور چیخیں ہی سماعتوں سے ٹکراتی ہیں ۔اوراگر یہ سلسلہ طوالت اختیار کرلے تو پھر ایک ایسا منحوس چکر چلنا شروع ہوتا ہے جو اس امر کا پیامبر ہوتا ہے
کہ جلد یا بدیر اس میں محض بے بس و بے اختیار ہی نہیں ،بلکہ سب پسنے والے ہیں ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کیا کرتا ہے اور کتنی طاقت و اختیار کا مالک ہے ۔کسی نہ کسی شکل میں تباہی سب کا مقدرہوتی ہے۔ دوسروں کوناانصافی و ظلم کانشانہ بنانے والے بالآخر خود بھی اسکا نشانہ بنتے ہیں۔اب اسے قسمت کی ستم ظریفی کہیں یا پھر معاشرے میں بسنے والوں کے اعمالِ مجموعہ ،ملک خدادِ پاکستان میں تیزی سے دگرگوں ہوتے ہوئے
حالات اس امر کی غمازی کررہے ہیں کہ وہ منحوس چکر یہاں بھی چل چکا ہے جس کو روکنے کے لئے اگر اسکے سامنے بلا تاخیر انصاف اور مظلوم کی داد رسی کا بند نہ باندھا گیا تو پھر چوکوں اور چوراہوں پر کیا ہوگا، کسی کو مزید بتانے کی ضرورت نہیں۔نشاندھی کرنے والی تمام علامتیں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔افسوس تو اس امر پر ہے کہ اربابِ اختیار مستیِ طاقت و حکومت میں اسقدر مستغرق ہیں کہ انہیں کوئی ہوش ہی نہیں وہ شایدہنوز اس سے بے بہرہ ہیں کہ سمندر میں ایک بڑے طوفان کے آنے سے پہلے خطرے کے تمام الارم بج اوربتیاں جل چکی ہیں اب تو ایک بڑی لہر کے آنے سے قبل پیداہونے والا گہرا سکوت ہے گویا کہ
یہ کسی سکوت کے صحرا میں قید ہیں ہم لوگ
کہ زندگی کی کہیں دور تک صدا بھی نہیں
اگرچہ کہ فراہمیِ انصاف کے معانی تو ہر شعبہ ھائے زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔لوگوں سے ظلم و زیادتی تو کسی بھی انداز میں نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ کسی مہذب معاشرے کے لئے قابل قبول ہے تاہم جب ہم نظام انصاف کی بات کرتے ہیں تو اس سے خاص مراد ریاست کے تین اہم ادارے پولیس ، عدالتیں اور جیل خانہ جات ہیں ۔یہ کہنا بجا طور پر غلط نہیں کہ ماتحت عدالتوں میں خاص طور پر انصاف نہیں ملتابلکہ بکتا ہے۔ مظلوم سائل نہ جانے کس کسی ستم ظریفی کو سہتا ہے۔انصاف کی تلاش میں اسکی زندگی کے نہ جانے کتنے ہی ماہ و سال عدالتوں کے چکر لگانے میں صرف ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کبھی اسے بتایا جاتا ہے کہ جج صاحب چھٹی پر ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ جج صاحب دو بجے کے بعد کیس سنیں گے
یا پھر آج کیس کی سماعت نہیں ہوسکے گی کیونکہ وکلائ ہڑتال پر ہیں۔سائل کا دل یہ سن کر بیٹھ جاتا ہے کہ جب فیصلہ کے وقت اسے بتایا جاتا ہے کہ اب مخالف وکیل صاحب نے ایک اور درخواست دے دی ہے اسلئے اب پہلے درخواست پر سماعت ہوگی اور پھر کیس سنا جائیگا۔ کبھی محرم کی چھٹیاں تو کبھی رمضان کی چھٹیاں ،کبھی گرمیوں کی چھٹیاں تو کبھی جج صاحب ہی چھٹی پر ہیں ۔ کبھی جج صاحب آنے والے اگلے جج کے لئے کیس کو نئے سرے سے سننے کے لئے چھوڑ کر تبدیل ہوگئے۔ نئے جج صاحب چونکہ ابھی آئے ہیں اسلئے کیس کو سمجھنے میں مزید کئی تاریخیں پڑینگی
۔ایسے میں اپنے یا مخالف وکیل صاحب نے منشی بھیج دیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اگلی تاریخ دے دیں۔یعنی تاریخ پر تاریخ ، قصہ مختصر۔ ویسے بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو عوام اور سائلین صبر کرلیتے تاہم چند روز قبل ماڈل ٹائون لاہور کی ایک ماتحت عدالت میںبھرے مجمع اور جج کے سامنے ایک ٴکالے کوٹٴ والے اور اسکے ساتھیوں نے ایک سائل کو جس بری طرح ڈنڈوں اور مکوں سے تششد کا نشانہ بنایااور ننگی گالیاں دیں ،یقینا انتہائی شرمناک ہے۔افسوس امر یہ ہے کہ عدالت میں اپنی غنڈہ گردی کا سکہ جمانے میں کامیاب رہنے والے وکیل کے حلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے ۔ ویے ہو بھی کیسے اسکے بیشتر ٴ کوٹ بند ٴ بھائی اسی قماش کے جو ٹھہرے جو اب عدالتوں سے انصاف جرح اور دلیل سے نہیں
بلکہ ڈنڈے اورسوٹے کے زور پر لے رہے ہیں۔ماتحت عدالتوں کے ججوں اور سائلین پر تشدد کرکے درحقیقت ٴکالے کوٹ ٴ والے اپنے ہی پیشے پر ایک کالی سیاہی پھیر رہے ہیں۔ اس صورت حال پر معاشرے میں بسنے والاہر شخص انگشت بدنداں ہے۔ پولیس والوں ہی کی سن لیں ،وہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ،ہم تو مجرموں کو پکڑتے ہیں لیکن عدالتیں مجرموں کو چھوڑدیتی ہیں۔جعلی پولیس مقابلوں کرنے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے۔ان جعلی مقابلوں کی ایک اور خاص خاصیت انکے ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے بتائی جانے والی ایک ہی طرح کی گھسی پٹی کہانی ہے
۔ٴگھمسان کا رنٴ پڑا جس کے احتتام پر ملزمان اپنے ساتھیوں ہی کی گولی کا شکار ہوگئے۔ٴٴظالموٝ کہانی ہی بدل لوٴٴ رہے جیل تو انکی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ جعلی پولیس مقابلوں کی حوالے سے بدنام زمانہ پنجاب پولیس کی ایک ذیلی شاخ لاہور پولیس نے لاہور کے علاقہ مانگا منڈی میں حالیہ دنوں میں ایک اورجعلی پولیس مقابلہ کر کے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ شہری مزید جعلی مقابلوں کے لئے تیار ہوجائیں ۔ رہیں موجودہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پولیس اصلاحات تو وہ اِک خیال ناتمام سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔بعض پولیس افسران کا موقف ہے کہٴ کتابی پولیسنگ ٴ نہیں چل سکتی ۔قابو سے باہر نکلتے ہوئے جرائم میں خاطر خواہ کمی لانے کا انکے پاس بس یہی ایک اکیسر نسخہ ہے۔تاہم اس موقف میں زیادہ وزن نظر نہیں آتا۔
دو دھائیوں کے دوران پنجاب ہی کیا پورے ملک کی پولیس نے اس نسخہ کا بے دریغ استعمال کیا تاہم بیماری کم ہونے بجائے مزید بڑھی ۔ اسکے برعکس سابق آئی جی پنجاب کیپٹن ٟرٞعارف نواز کے زیر سرپرستی سی سی پی او لاہوربی اے ناصر اور انکی ٹیم کے دو ڈی آئی جیز انعام وحید اور اشفاق احمد خان کی جانب سے کوئی بھی جعلی پولیس مقابلہ کیے بغیر کرائم گراف کو کافی حد تک کم کرنے کا کامیاب تحربہ کیا گیا۔ بعض بین الاقوامی اداروں نے بھی اسکا اعتراف کیا۔ بتایا جاتا ہے ڈی آئی جی انعام وحید نے پنجاب کے ایک اعلی پولیس افسر کی جانب سے دیے
جانے ایسے ہی ایک حکم کو ماننے سے صاف انکار کیا جس کا خمیازہ بعد ازاں انہیں اپنے تبادلے کی صورت میں دینا پڑا۔پنجاب کے ایک ضلع میں ایک اہم ادارے کے ملازمین کی جانب سے ایک شہری کو اُٹھانے کی حالیہ کوشش کے دوران شہریوں کا مشتعل ہوکر ان پر چڑ ھ دوڑنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔تاہم سوال یہ بھی ہے جس ملک میںٴ اغواہونے والے آئی جی سندھ انصاف حاصل نہ کرسکیں اور انکوائری سرد خانے کی نظر ہوجائے وہاں بھلا عام آدمی کیسے انصاف حاصل کرے گا؟