ہیلتھ لیوی کے عدم اطلاق سے پاکستان میں غیر مواصلاتی بیماریوں کی لاگت 267 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، ثناء اللہ گھمن 102

ہیلتھ لیوی کے عدم اطلاق سے پاکستان میں غیر مواصلاتی بیماریوں کی لاگت 267 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، ثناء اللہ گھمن

ہیلتھ لیوی کے عدم اطلاق سے پاکستان میں غیر مواصلاتی بیماریوں کی لاگت 267 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، ثناء اللہ گھمن

اسلام آباد (فائزہ شاہ کاظمی بیورو چیف) ہیلتھ لیوی کے عدم اطلاق سے پاکستان میں غیر مواصلاتی بیماریوں کی لاگت 267 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، ثناء اللہ گھمن ہیلتھ لیوی بل میں تاخیر سے حکومت کوریونیوکی مدمیں سالانہ 55 ارب روپے سے زائدکانقصان اٹھاناپڑرہاہے، پناہ اورسول سوسائٹی الائنس کی جانب سے ہیلتھ لیوی میں تیزی لانے کی درخواست، “موٹاپا اور غیر مواصلاتی بیماریوں پر شگری ڈرنکس کے اثرات”کے

موضوع پر گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے اشتراک سے پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن(پناہ) اور اسکیلنگ اپ نیوٹریشن سول سوسائٹی الائنس کے زیر انتظام ویبنارکااہتمام کیاگیا،جہاں قومی اور بین الاقوامی تنظیموں سمیت ملک بھر میں 35 سے زائد سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی،اس موقع پرپاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ)اور ایس یو این سول سوسائٹی الائنس نے حکومت سے صحت سے متعلق بل میں تیزی لانے کی درخواست کی،اوراس اندیشہ کااظہارکیاکہ اگر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو پاکستان میں غیر مواصلاتی بیماریوں کی لاگت 267 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گئی، ہیلتھ لیوی بل میں تاخیر سے حکومت کوریونیوکی مد میں ملنے والے سالانہ 55 ارب روپے کانقصان اٹھاناپڑرہاہے۔
اس بات کا تبادلہ گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے اشتراک سے پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن(پناہ) اور اسکیلنگ اپ نیوٹریشن سول سوسائٹی الائنس کے زیر اہتمام ویبنار کے دوران کیا گیا ہے۔۔ مقررین نے ایسے لوگوں کی صحت پر میٹھے مشروبات اوران کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی جو باقاعدگی سے ایسے مشروبات کا استعمال کرتے ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی کے فوکل پرسن نذیر احمدنے کہاکہ شوگر کا زیادہ استعمال موٹاپا اور اس سے وابستہ امراض کی ایک بڑی وجہ ہے، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، جگر اور گردوں کو پہنچنے والے نقصان، دل کی بیماری اور کینسر کے خطرے میں اضافہ کرتاہے، شوگری ڈرنکس کا استعمال چینی کا ایک اہم ذریعہ ہے،شوگری ڈرنکس کابڑھتاہوارجحان لاحق ہونے والے بیماریوں پراخراجات کے اضافہ کاباعث بن رہاہے۔
کورٹنی پیٹرزگلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کورٹنی پیٹرزنے بتایا کہ 19.4 ملین کیسز کے ساتھ، پاکستان ذیابطیس کے مرض میں چوتھے نمبر پرہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق، 2016 میں پاکستان میں 800,000 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ جن میں سے68,000 افراد کو ذیابیطس اور ہائی بلڈ گلوکوز سے منسوب کیا گیا،روزانہ کی بنیاد پرشوگری ڈرنکس کے استعمال سے بڑوں کے وزن میں 27 فیصد اور بچوں میں 55 فیصد کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
فوڈ پالیسی پروگرام کے نمائندہ منور حسین نے بتایا کہ میکسیکو، انڈیا، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے شواہد بتاتے ہیں کہ شوگری ڈرنکس پر ٹیکس عائد کرنا اس کی کھپت کو کم کرنے اور حکومت کے لئے محصول میں اضافہ کاموثر ذریعہ ہے، پاکستان میں کاربونیٹیڈ مشروبات، جوسز اور انرجی ڈرنکس کی خریداری پر سالانہ 525 ارب سے زائد خرچ آرہاہے۔
پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) کے جنرل سیکریٹری ثناء اللہ گھمن نے کہاکہ ہم عوام کوصحت،اس کونقصان پہنچانے والے عوامل سے متعلق آگہی اور اسکی روک تھام کے لئے قوانین پرپچھلے 36سال سے کررہے ہیں،دوران گفتگو ثناء اللہ گھمن نے وزیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کی مثبت کاوشوں کوسراہا،کہ ڈاکٹرفیصل سلطان نے وفاقی کابینہ سے منظور کردہ ہیلتھ لیوی بل کوپاس کروانےمیںاپناکرداراداکیا،اوراس میں تیزی لانے کے لئے وزارت خزانہ سے بھی بات کی،ثناء اللہ گھمن نے کہاکہ ہیلتھ لیوی کے نفاذ سے حکومت کیلئے دوہرافائدہ ہے،

ایک حکومت کے ریونیومیں اضافہ ہوگااوردوسری طرف بیماریوں پراٹھنے والے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
ممبر وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدام اور فوڈ سیکیورٹی اور آب و ہوا کی تبدیلی ڈاکٹرحامد جلیل نے کہا کہ آج کا ویبینار فوری کارروائی کا مطالبہ ہے، انہوں نے جنوری 2021 کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پالیسی ڈائیلاگ اور اورینٹیشن سیشن کا انتظام کرنے کا مشورہ دیا، انہوں نے بتایا کہ ان کا دفتر آئندہ بجٹ کے دوران شوگر میٹھے مشروبات پر عائد ٹیکسوں کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
چیئرپرسن اسکیلنگ اپ نیوٹریشن سول سوسائٹی الائنس سمیہ خان نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ موٹاپا کی روک تھام ہماری ماضی کی پالیسیوں میں زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی، موٹاپا غیر مواصلاتی بیماریوں کااہم ذریعہ ہے،ملک میں ہونے والی کل اموات میں این سی ڈی کا حصہ 58 فیصد ہے۔ این سی ڈی کا معاشی بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے اور اگر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو وہ 296 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ این سی ڈی پرآنے والے حکومتی اخراجات کوکم کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے چاہیے،اس موقع پر انہوں نے اور ایس یو این سول سوسائٹی اتحاد کے تمام ممبروں سے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں