عوام کا بدلہ وقت ہی لے گا !
تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف عوام کے ووٹ کے ساتھ حکومت میں آئی ہے اور اپنے پانچ سال پورے کرے گی، اس کے بعد ہی اقتدار میں تبدیلی آئینی وجمہوری طریقے سے ہی ہو گی۔اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف تحر یکیںچلاتی رہی ہیں اور آج بھی چلارہی ہیں، کیو نکہ اپوزیشن میں ہوتے سب کچھ براہی نظر آتا اور خراب محسوس ہوتا ہے، یہ عمومی رویہ ہے اور سیاسی جماعتوں کا اپوزیشن میں رہتے ہوئے کام کرنے کا یہی انداز رہا ہے۔ اپوزیشن کبھی اقتدار کی سیاست کے بغیر کام نہیں کرتی، حالانکہ پارلیمانی طرز حکومت میں اپوزیشن کا کردار حکومت سے بھی زیادہ ہوتاہے۔
حزب اختلاف حکومت کی سمت کو درست کرنے اور اسے راہ راست پر لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، لیکن پاکستان میں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے، انہیں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے مشورہ دینے کے بجائے مخالفت برائے مخالفت میں مصروف رہتی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ وروایت یہی رہی ہے اور کوئی اس روایت کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ،حالانکہ اس مفاداتی سیاسی کھیل میں نقصان صرف ملک و قوم کا ہوتا ہے۔
یہ امرواضح ہے کہ اپوزیشن کا ایجنڈا حصول اقتدار ہے ،اس لیے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت مخالف تحریک چلائی جارہی ہے ، کیا حکومت گرانے کا ایجنڈا لے کر آگے بڑھنا ملک کی خدمت ہے، یہ کونسی جمہوریت ہے کہ ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجنے پر مجبور کیا جائے، اگر ماضی میںکسی نے حکومت ہٹانے کی تحریک چلائی یا اپنے دور میں مظاہروں کی سیاست کی ہے تو آج اسی غلطی کو دہرانا کہاں کی عقل مندی ہے
،مگر مولا نا فضل الرحمن الیکشن کے بعد سے ہی اپوزیشن جماعتوں سے اجتماعی استعفوں کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں، لیکن ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہوئی،تاہم پی ڈی ایم کی صدارت حاصل کرنے کے بعد اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ اپنے اس مطالبے کو بزور منواسکیں، میاں نواز شریف نے مولانا کی رائے سے اتفاق کر تے ہوئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو استعفے لینے کی ہدایت کی ہے،اگرچہ مریم نواز دعویٰ کررہی ہیں کہ ان کے پاس استعفوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ارکان اسمبلی کو وارننگ بھی دے رہی ہیں کہ اگرکسی نے استعفا دینے سے انکار کیا
تو اس حلقے کے عوام انکا گھیرائو کریں گے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے اور مسلم لیگی ارکان استعفے دینے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں،جبکہ پیپلز پارٹی بھی واضح طور پر سامنے نہیں آرہی ہے۔
بے شک بلا ول بھٹو زردار ی پریس کا نفرنس میں تو مکالمہ نہ کرنے اور استعفے دینے کی بات کرتے ہیں ،مگر پس پر دہ مقتدر قوتوں سے مکالمے کے ساتھ پی ڈی ایم کے اجلاس میںاستعفوں کے معاملے کو التوا میں ڈال دیتے ہیں،پیپلز پارٹی کے حوالے سے عمومی رائے یہی ہے کہ پیپلز پارٹی استعفے دینے پر آمادہ نہیںہوگی، کیونکہ پیپلز پارٹی جس انداز میں سندھ پر حکومت کررہی ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کہ آئندہ شائداس کی باری نہ آنے پائے ،پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات میں بھرپور حصہ لینے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ آئندہ اپنی حکومت کو یقینی بنانے کے لیے سندھ پر اپنی گرفت برقرار رکھنا چاہتی ہے،پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے ،اب رہ گئے مولانا تو ان کی اپنی جماعت سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سینئر رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ،اس بیان کے بعد جمیعت علمائاسلام کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ایک طرف مولانا پی ڈی ایم
میں سرگرم نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی جماعت سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہو نے کے ساتھ نیب کا بلاوابھی آنے والا ہے،اس تناظر میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ پی ڈی ایم مرکزی قیادت مسائل کا شکار ہونے پر پیپلز پارٹی اچانک موقف میں نرمی پیدا کر
کے سارے کھیل بدل سکتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت احتجاجی تحریک سے جائے گی نہ استعفوں سے کوئی فرق پڑے گا ،تاہم حکومت کے غیر جمہوری رویے کے خلاف بطور احتجاج اپوزیشن کا استعفے دینا اور وزیراعظم کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ایک پُرامن جمہوری عمل ہے، لیکن پی ڈی جماعتیں بظاہر یہ دونوں طریقے اختیار کرنے سے گریزاں نظر آرہی ہے ،کیو نکہ انہیں اپنی کا میاببی کا یقین نہیں ہے تو پھر کیا پی ڈی
ایم صرف احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے لیے ہی وجود میں آئی تھی؟پی ڈی ایم کاایجنڈا خود کو بچانا اور حکومت گرانا کا میاب نہیں ہو سکا، پی ڈی ایم کے ہاتھ سے گیم نکلتی جارہی ہے ،اپوزیشن کی ہنگامہ آرئی سے حکومت گئی نہ آئندہ جائے گی، البتہ عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مفادپرست سیاسی قیادت نے پہلے بھی مواقع ملنے پر ملک وقوم کے لیے کچھ کیا نہ آئندہ کچھ کریں گے،مفاد پرست قیادت نے عوام کوہمیشہ ببے وقوف بنایا ہے ،عوام کا بدلہ ان سے وقت ہی لے گا اور وقت بہت بے رحم ہے ،وہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا ہے۔