تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 82

تصادم سے بہر صورت بچا جائے !

تصادم سے بہر صورت بچا جائے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملکی سیاست میں افہام و تفہیم، تحمل، رواداری اور برداشت کی جگہ اشتعال انگیزی مبازرت طلبی اور ایک دوسرے کی توہین و تضحیک کی جو روایت چل پڑی ہے ،اس کا فائدہ اور نقصان کس کو ہو گا؟ اِس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا،تاہم ایک بات واضح ہے کہ یہ جمہوریت کیلئے کوئی نیک فال نہیںہے۔ اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اِس میں خیر کے پہلو غالب ہیں،اگر دو فریق نیک نیتی سے بحث و تمحیص کے ذریعے مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کریں تو کوئی معاملہ ایسا نہیں، جسے یکسو نہ کیا جا سکے، لیکن حکومت اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے سیاسی معاملے میں سخت گیر موقف اپنا رکھا ہے،حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا قانونی حق ہے ،لیکن اپوزیشن کا موقف ہے

کہ موجودہ حکومت غیر منتخب ،غیر جمہوری ہے ،اسے الیکشن میں دھاندلی کرکے بر سر اقتدار لا یا گیا ہے،حکو مت اور اپوزیشن تکرار کے باعث ٹکرائو لازمی دکھائی دے رہا ہے ،ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاست کی سمت بدلی جائے اور تصادم کی بجائے مفاہمت کی طرف بڑھا جائے، اس کے لئے مذاکرات ہی معقول راستہ ہے جوحکومت اور اپوزیشن کی یکساں ذمہ داری ہے۔ پی ڈی ایم نے مختلف شہروں میں جلسے ، ریلیوں کے بعد حکومت کو خبردار کیا ہے

کہ اس کے اراکین حکومت کو گرانے کے آخری حربے کے طور پر مستعفی ہوجائیں گے، تاہم عمران خان پہلے ہی یہ دعوی کرچکے ہیں کہ وہ استعفوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔پی ڈی ایم میں استعفوں کے معاملے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے ،تاہم باعث مجبوری اراکین اسمبلی اپنی قیادت کی وساطت سے ہی استعفے جمع کرائیں گے اور جن مبینہ استعفوں کی سپیکر نے تصدیق کرنا ہے، مذکورہ ارکان کے ان کو ارسال کرنے سے انکار کے بعد معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ استعفوں کی وصولی ومنظوری کے معاملات سے قطع نظر کچھ درپردہ معاملات وملاقاتیں اور پیشرفت ایسی نظر آنے لگی ہیں

کہ جس کے بعد استعفوں کا مؤخر ہونے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے آصف علی زرداری کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، جبکہ وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی ہے،اس کے ساتھ ہی سب سے بڑی پیشرفت سابق وزیراطلاعات محمد علی درانی کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات ہے،اگر ان تمام عوامل کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے انکار کے باوجود پی ڈی ایم سے مذاکرات ہورہے ہیں۔
ماضی میں بھی سیاسی مکالمہ کیلئے پیر شاہ مرداں پیر پگارا مرحوم کا ایک خاص کردار رہا ہے، ممکن ہے کہ ان کی جماعت اور گدی نشین بھی انہی کے نقش قدم پر معاملات کے بین السطور مکالمہ اور غیر اعلانیہ معاہدہ ومفاہمت کیلئے کردار ادا کررہے ہوں، پہلے بھی سیاسی قائدین کی جیل میں ملاقاتیوں کو میاں شہبازشریف نے مکالمہ کا پیغام دیا،

اب بھی مفاہمت اور مکالمے کا ہی پیغام ملا ہے، گو کہ پی ڈی ایم اپنا سیاسی ٹیمپو بر قرار اور حکومت دبائو جاری رکھتے نظر آتے ہیں، اپوزیشن قیادت ایک طرف استعفے دینے کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب ضمنی اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، پس پردہ مقتدرقوتوں سے مکالمہ بھی جاری ہے اور حکومت جانے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے ،سیاست کے نام پر ذاتی مفادات کے حصول کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

،آئندہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم سیاسی معاملات کا اونٹ اپنی کروٹ بدلتا ضرورنظر آرہا ہے۔یہ امر واضح ہے کہ تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) تینوں سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہنا چاہتی ہیں ،اس اقتدار کی خواہش میں کون اقتدار میں رہے گا اور کسے انتظار کرنا پڑے گا، اس کا فیصلہ تو وقت نے ہی کرنا ہے ،لیکن یہ بات طے ہے کہ سب کا مقصد صرف حصول اقتدار ہے ،عوام کا حقیقی غم کسی کو نہیں ہے، عوام کو پہلے بھی اقتدار کے معاملات
دور رکھا گا اور اب بھی لاعلم رکھا جارہا ہے ، عوام کو کل ووٹ کیلئے استعمال کیا گیا ،آج احتجاج میں زبردستی دھکیلا جارہا ہے ، بہتر ہوگا کہ ملک کے تمام اسٹیک ہو لڈر مل بیٹھ کر پس پردہ چلنے والے سیاسی معاملات آگے بڑھائیں اور سیاسی معاملات کا مفاہمانہ طور پر جلد از جلد کوئی حل نکالیں، احتساب کے نام پر کسی کودیوار سے لگایا جائے، نہ جیل میں رکھا جائے اور عدالت میں کچھ ثابت نہ کیا جائے اور نہ ہی احتساب کا ہوا کھڑا کر کے عوام کو خواہ مخواہ انصاف کا تاثر دیا جائے،عوام کو بے وقوف بنانے کا طرز عمل بدلا جائے اور سیاسی معاملات کا درپردہ حل تلاش کرنے کی بجائے کھلے عام مذاکرات ومیثاق کیا جائے

تو سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ پس پردہ سیاسی معاملات کا حل نکالنے کا عمل جب تک ناگزیر ہو،اس میںمضائقہ نہیں ،لیکن بالآخر اس پر بھی عوام کو اعتماد میں لینے اور عوام کو آگاہ کیاجانا چاہئے۔ عوام سے کوئی بھی میثاق، مفاہمت اور معاہدہ پوشیدہ نہیں کرنا چاہئے ، کیو نکہ اگر حالات واقعات کی پرتیں کھول کر بلی تھیلے سے کبھی باہر آگئی تو اسی چوراہے پر سیاسی قیادت کیلئے عوام کو چہرہ دکھانا مشکل ہو جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں